چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرضہ معافی کیس میں 222 افراد کو تین ماہ میں واجب الادا قرض کا 75 فیصد حصہ جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے قرضہ معافی ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے رانا حیات کے حوالے سے استفسار کیا کہ کیا یہ وہی ہیں جو انتخاب لڑ رہے ہیں جس پر وکیل صفائی اکرام چوہدری نے جواب میں کہا کہ رانا حیات کا نام 222 افراد کی فہرست میں نہیں۔
وکیل صفائی کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگران کا نام 222 افراد کی فہرست میں نہیں تو اس معاملے کو بھی ہم دیکھ لیں گے، جب قرض لے کر کھایا گیا اس وقت خیال نہیں کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ قرض معافی سے متعلق تمام 222 مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیتے ہیں اور بینکنگ کورٹس اس کیس کا خود جائزہ لیں گی۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ قرض معاف کرانے والے افراد 25 فیصد پرنسپل رقم ادا کریں، یہ پیش کش قبول نہ کرنے والوں کے مقدمات بینکنگ کورٹس بھجوا دیں گے۔
انھوں نے کہا تھا کہ بینکنگ کورٹس کو 6 ہفتوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ہدایات دیں گے، اس کے علاوہ 25 فیصد قرض معافی کی رقم کے لیے سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ کھول کر3 ماہ میں جمع کرانے کا حکم دیں گے۔
اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے 222 کمپنیوں سے ایک ہفتے میں تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے تو معاملہ نیب کے حوالے کردیں گے اور قرض نادہندگان کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی۔