دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم سوچ رہے ہیں کہ حکومت سے کہیں کہ مہنگے نجی اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لے لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتوں کی نااہلی ہے جنہوں نے تعلیم کو ترجیح نہیں دی، جتنی فیس نجی اسکول لیتے ہیں وہاں غریب کا بچہ نہیں پڑھ سکتا۔
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نجی اسکولوں میں سرکاری اسکولوں سے زیادہ بچے پڑھ رہے ہیں یا تو ہم خود نجی اسکولوں کی فیسوں کا تعین کردیں یا پھرریاست پیسے دے کر عام آدمی کے بچوں کو پڑھائے یا پھران سکولوں کو تحویل میں لے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تعلیم حاصل کرنا بچوں کا بنیادی حق ہے جبکہ آرٹیکل 25 اے میں تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور16 سال تک مفت تعلیم دینا ریاست کے ذمے ہے۔
سماعت کے دوران نجی اسکول کے وکیل شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ گریڈ 18 کے افسر کی تنخواہ کتنی ہوگی؟ اس پر شاہد حامد نے کہا کہ 4 سے 5 لاکھ روپے تک ہوگی، مجھے صحیح سے معلوم نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خدا کا خوف کریں، ایک لاکھ 18 ہزار روپے ان کی تنخواہ ہوتی ہے، آپ کے اسکول میں 3 بچے اس نے پڑھانے ہوں تو90 ہزار روپے فیس کی مد میں دے گا۔