اسلام آباد: شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت میں ہوئی، جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے مزید 2 دن کا استثنیٰ دے دیا گیا۔
دوسری جانب مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز کے حتمی دلائل کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری رہا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف نے خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز لندن میں ہونے کی وجہ سے آج پیش نہیں ہوئے۔
احتساب عدالت میں سماعت کے دوران نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے 7 دن کے استثنیٰ کی درخواست پر بحث کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے استثنیٰ کی مخالفت کردی۔
سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق بیگم کلثوم نواز کی طبعیت بہتر ہے، لہذا اب نواز شریف اور مریم نواز کا وہاں رہنا ضروری نہیں۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہتا کہ ہر پیشی پر سات دن کا استثنیٰ مانگ لیا جائے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا نواز شریف اور مریم نواز کو ٹائم دینا چاہیئے کہ وہ ایک دو دن میں عدالت میں پیش ہوں۔
احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اس کیس کی 29 جون کو سماعت پراحتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایڈووکیٹ امجد پرویز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں پیر2 جولائی کو ہر حالت میں حتمی دلائل ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سماعت کے آغاز پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے تیسرے روز حتمی دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل صفائی امجد پرویز کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق متعلقہ شعبے میں مہارت والا ہی رائے دے سکتا ہے اور جس بنیاد پر ماہر رائے دے رہا ہے، وہ بنیاد بھی متعلقہ ہونی چاہیئے۔
ایڈووکیٹ امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ گواہ رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ وہ 1976 سے اس شعبے میں کام کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی تعلیم نہیں بتائی۔
انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی سی وی ضرور ہے، لیکن بیان کے دوران وہ سی وی ریکارڈ پر نہیں دیکھی، استغاثہ کو وہ سی وی رابرٹ ریڈلے کے بیان کے وقت ریکارڈ پر لانی چاہیے تھی۔
وکیل صفائی امجد پرویز نے دلائل کے دوران مزید کہا کہ فونٹ کی شناخت کرنا ایک الگ مہارت ہے لیکن رابرٹ ریڈلے نے اپنی سی وی میں یہ مہارت ظاہر نہیں کی۔
امجد پرویز نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 4 کے صفحہ 136 پر ایلن ریڈلے کی سی وی بھی موجود ہے، جس میں انہوں نے فونٹ شناخت کی مہارت ظاہر کر رکھی ہے، لیکن ایلن ریڈلے کے مقابلے میں رابرٹ ریڈلے نے یہ بات نہیں لکھی۔
وکیل صفائی امجد پرویز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے فونٹ شناخت کرنے کے ماہر نہیں ہیں، کسی ماہر پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی معلومات کے ذرائع بتائے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ رابرٹ ریڈلے نے جرح میں تسلیم کیا وہ کمپیوٹر کے ماہر نہیں۔
امجد پرویز کے مطابق رابرٹ ریڈلے نے تسلیم کیا کہ 2005 میں انہوں نے کیلبری فونٹ ڈاؤن لوڈ کیا، اس اعترافی بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ اُس وقت کیلبری فونٹ دستیاب تھا جبکہ استغاثہ نے کہا کہ 2007 سے پہلے کیلبری فونٹ کمرشل استعمال کے لیے دستیاب نہیں تھا۔
ایڈووکیٹ امجد پرویز نے دلائل کے دوران کہا کہ اگر استغاثہ کی بات مان لیں تو 2005 میں کیلبری فونٹ دستیاب ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
وکیل صفائی کے مطابق رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ انہوں نے اپنی معلومات کے ذرائع ظاہر کر رکھے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں اور رابرٹ ریڈلے نے کوئی معلومات ظاہر نہیں کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے رابرٹ ریڈلے کی خدمات اختر راجہ کے ذریعے حاصل کیں، یہ خدمات اختر راجہ کے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی تھیں۔
امجد پرویز نے دلائل کے دوران کہا کہ رابرٹ ریڈلے غیر جانبدار نہیں، انہوں نے گواہی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔
انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے اپنی پہلی رپورٹ میں فونٹ کی بات ہی نہیں کی، تین دن بعد ریڈلے نے دوسری رپورٹ بھیج دی، جس میں انہوں نے بات ہی فونٹ کے حوالے سے کی، لیکن یہ نہیں بتایا کہ پہلی رپورٹ میں فونٹ والی بات کیسے رہ گئی۔
وکیل صفائی امجد پرویز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے فوٹو کاپی کا تجزیہ کرکے رپورٹ دی اور کہا کہ تجزیہ تجربے کے لیے بہترین طریقہ ہے، وہ فوٹو کاپیوں سے مطمئن نہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ فوٹو کاپی سے جانچنا ممکن نہیں کہ 2004 کو کاٹ کر 2006 یا 2006 کو 2004 لکھا گیا۔
امجد پرویز کے مطابق رابرٹ ریڈلے نے فیصلہ کرنے کا اختیار اس عدالت پر چھوڑا ہے۔
وکیل صفائی امجد پرویز نے دلائل کے دوران مزید کہا کہ استغاثہ نے نہیں بتایا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کہاں اور کس قانون کے تحت رجسٹرڈ کرانا ضروری تھی؟ جبکہ صفحہ مثل پر ایسی کوئی شہادت بھی موجود نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسٹیفن مورلے کے مطابق ایسی کوئی اتھارٹی نہیں جہاں ایسی ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹرڈ کرائی جائے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔