اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکالے جانے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے زلفی بخاری کے معاملے پر وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ ایک کال پر چیزیں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہیں، اگر نام بلیک لسٹ میں ڈالا ہی تھا تو ایک کال پر کس طرح نکالا۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ بلیک لسٹ سے متعلق قانون کیا ہے؟ درخواست ای سی ایل کی آئی اور نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ غیر ملکی یا دہری شہریت رکھنے والے کو بلیک لسٹ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جس پاکستانی پاسپورٹ کو کینسل کیا اس کا نمبر کیا ہے۔
اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ زلفی بخاری کا پاسپورٹ نہیں شناختی کارڈ کینسل کیا جس پر فاضل جج نے کہا کہ شناختی کارڈ پر کیسے بلیک لسٹ کیا جا سکتا ہے؟ اس کی قانونی حیثیت کیا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ وزارت داخلہ کا اپنا ایس او پی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود رولز بنا کر خود ہی توڑ دیا، پہلے نام بلیک لسٹ میں ڈالا پھر خود ہی نکال دیا جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ صوابدیدی اختیارات پر زلفی بخاری کو جانے کی اجازت دی گئی۔
فاضل جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کون سے صوابدیدی اختیارات، یہ کوئی بادشاہت تو نہیں ہے، اس موقع پر انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ زلفی بخاری کی جانب سے بلیک لسٹ سے نکالنے کی کوئی درخواست نہیں ہے۔
دوران سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ نام ای سی ایل میں ڈالنے کی ہماری استدعا اب بھی برقرار ہے۔
اس موقع پر زلفی بخاری کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ نام بلیک لسٹ سے نکالا جائے، کاروبار، بچے اور فیملی برطانیہ میں ہے۔
عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکالے جانے کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔