ایون فیلڈ ریفرنس میں کب کیا ہوا ؟

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف دائر کیا گیا ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ آج سنادیا گیا ہے،عدالت نے فیصلہ تین جولائی کو محفوظ کیا تھا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے28جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نوازشریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر نواز شریف فیملی کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ، فلیگ شپ اور العزیزیہ سٹیل مل ریفرنسز دائر کیے گئے تھے ۔ تینوں ریفرنسز میں سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ آج سنایا گیا، ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف، مریم نواز ، حسن اور حسین نواز کے ساتھ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر ملزم نامزد تھے۔ عدالت نے عدم حاضری کی بنا پر حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیدیا تھا۔
نیب کی طرف سے نواز شریف اور بچوں کیخلاف 8 ستمبر 2017ءکو عبوری ریفرنس دائر کیا گیا تھا، مزید شواہد سامنے آنے پر نیب نے 22 جنوری کو ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر 18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے تھے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا بھی شامل تھے۔

19 اکتوبر2017 کو مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ نواز شریف کی عدم موجودگی کی بنا پر ان کے نمائندے ظافر خان کے ذریعے فردِ جرم عائد کی گئی تھی جبکہ 8 نومبر کو پیشی کے موقع پر نواز شریف پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف پہلی بار 26 ستمبر 2017 کو بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے جبکہ مریم نواز پہلی بار 9 اکتوبر کو احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئیں تھیں۔ مجموعی طور پر نواز شریف 78 اور مریم نواز 80 بار احتساب عدالت میں پیش ہوئیں تھیں۔ ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری ہونے کے باعث کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے عدالت پیش کیا گیا تھا ۔
مسلسل عدم حاضری کی بنا پرعدالت نے 26 اکتوبر 2017 کو نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ 3 نومبر 2017 کو پہلی بار نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں اس وقت تعطل پیدا ہوگیا تھا جب 11 جون 2018 کو حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے تھے جس کے بعد ایڈووکیٹ جہانگیرجدون نے وکالت نامہ جمع کرایا تھا۔ 19 جون کو خواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے تھے اوردستبرداری کی درخواست واپس لے لی تھی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 9 ماہ 20 دن تک ریفرنس کی سماعت کی اور3 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اس دوران مجموعی طور پر18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے تھے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔