سپریم کورٹ میں سرکاری گھروں کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پولیس نے لال مسجد آپریشن کی آڑ میں قبضہ کیا، غیر قانونی قابضین گھر فوری طور پر واپس کریں، پولیس بلا شبہ ہماری فورس ہے لیکن کسی کا حق نہیں ماریں گے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سرکاری گھروں کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جی سکس اور جی سیون کے فلیٹس میں زلزلہ متاثرین آباد تھے، لال مسجد آپریشن کے لئے رینجرز کو فلیٹس میں ٹھہرایا گیا، رینجرز کے بعد اسلام آباد پولیس نے فلیٹ لے لیے، اب اسلام آباد پولیس کے اہلکار گھر خالی نہیں کر رہے، پولیس کے ذمہ 35 کروڑ کرایہ واجب الادا ہے، عدالتی حکم کے باوجود بجلی و گیس کے غیر قانونی کنکشن جاری ہوئے، پولیس کرایہ دے تو 35 کروڑ ڈیم فنڈز میں جائیں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد پولیس فلیٹ خریدنا چاہتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب حد ہوتی ہے، پولیس اہلکار غیر قانونی رہائش پذیر ہیں، جن کے لیے فلیٹ بنے وہ درخواستیں لے کر لائنوں میں لگے ہیں، کیا سرکاری ملازم سرکاری اراضی پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ پولیس نے لال مسجد آپریشن کی آڑ میں قبضہ کیا، غیر قانونی قابضین گھر فوری طور پر واپس کریں، پولیس بلا شبہ ہماری فورس ہے لیکن کسی کا حق نہیں ماریں گے،35 کروڑ کے واجبات فلیٹس پر قابض پولیس اہلکاروں کو ادا کرنا ہوں گے، اگر پولیس نے گھر خالی نہ کیے تو رینجرز کو مدد کے لیے بلائیں گے۔
سماعت کے دوران خاتون پولیس اہلکار نے عدالت سے استدعا کی وہ 22 سال سے ملازمت کررہی ہیں لیکن اب تک اسے گھر کی الاٹمنٹ ہی نہیں ہوئی، چاہے کچی بستی میں ہی کیوں نہ ہو لیکن گھر الاٹ کروا دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو کچی بستیاں بھی پکا کرنے کا سوچ رہا ہوں۔
عدالت نے پولیس اہلکاروں کی جانب سے سرکاری گھروں پر قبضے کا معاملہ 15 دن میں حل کرنے کا حکم دے دیا۔