اسلام آباد: سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 57 راولپنڈی ون سے الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مبنی سپریم کورٹ کے بینچ نے شاہد خاقان عباسی کے کاغذات نامزدگی کی منظوری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار شہری مسعود عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ شاہد خاقان عباسی نے بیان حلفی اور کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کی اس لیے انہیں الیکشن لڑنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر ان کے نامزدگی فارم مسترد کیے جائيں۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ کیس پراپرٹی کی مارکیٹ ویلیو کم بتانے سے متعلق ہے؟
انہوں نے مزید استفسار کیا کہ اگر شاہد خاقان عباسی نے حقائق چھپائے ہیں تو شواہد کدھر ہیں؟
جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ (ہیر پھیر) کی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر ریکارڈ ٹیمپر ہوا ہے تو شہادت ریکارڈ ہونی ہے؟
انہوں نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں، یہ معاملہ سمری پروسیڈنگ میں نہیں آتا، اس معاملے کا باقاعدہ پروسیجر ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں شاہد خاقان عباسی نے کیا مس ڈکلیئریشن کی؟
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ جتنی پراپرٹی انکم ٹیکس ریٹرن میں لکھی ہو وہی کاغذات نامزدگی میں لکھتے ہیں۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے وکیل درخواست گزار سے سوال کیا کہ آپ کا کیس سے کیا تعلق ہے؟کیا آپ مخالف امیدوار ہیں؟
درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ میں اس حلقے کا ووٹر ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا اس کیس سے نہ تعلق ہے اور نہ واسطہ، لہذا عدالت کا وقت ضائع نہ کریں۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے شہری مسعود عباسی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کو این اے 57 راولپنڈی ون سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔