اسلا م آباد:سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات پرٹیکسزسے متعلق ازخودنوٹس کیس میں ایل این جی درآمد سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل اور ایم ڈی پی ایس او عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے پیٹرولیم مصنوعات کی کوالٹی اور درآمد سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جب کہ سپریم کورٹ نے ایم ڈی پی ایس او کی تعیناتی اور مراعات کے معاملے میں نیب کو طلب کر لیاجبکہ عدالت نےایل این جی درآمد سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب یہ بھی بتائے کہ ایل این جی پر ہونے والی تحقیقات کہاں تک پہنچیں؟
جسٹس ثاقب نثار نے ایم ڈی پی ایس او سے استفسار کیاکہ آپ کو کب اور کس کی سفارش پر تعینات کیا گیا؟ اس پر ایم ڈی نے بتایا کہ مجھے 2015 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے تعینات کیا، شاہد خاقان عباسی نےکمیٹی کی سفارش پر مجھے تعینات کیا، اشتہار کے ذریعے حکومت نے 6 نام فائنل کیے جن میں سے مجھے چنا گیا۔
ایم ڈی پی ایس او نےبتایا کہ جب ادارے کا چارج سنبھالا تو منافع 6 ارب تھا جسے بڑھا کر 18 ارب کردیا ہے۔
چیف جسٹس نے پاکستان اسٹیٹ آئل کے مینجنگ ڈائریکٹر سے مکالمہ کیا کہ آپ کا تو پٹرولیم کا تجربہ ہی نہیں ہے، حکومت کا یہ طریقہ کار ہے نجی کمپنیاں بناؤ، اپنے بندے لگاؤ اور ان کو فائدے پہنچاؤ، کیوں نا آپ کو معطل کر دیا جائے؟
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئےکہ کسی قومی ایجنسی ذریعے آپ کی تعیناتی سے متعلق تحقیقات کرالیتے ہیں، پی ایس او کا آڈٹ بھی آڈیٹر جنرل سے کرا لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس ملک میں کیا لت پڑی ہوئی ہے کہ ٹیکس کا پیسہ لٹایا جائے،2 سے ڈھائی لاکھ تنخواہ والے گریڈ 22 کے افسر کو 4 لاکھ دے کر ایم ڈی بنایا جاسکتا تھا۔
کیس کی مزید سماعت دن ڈیڑھ بجے تک ملتوی کی گئی جس کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے پی ایس او کے تین سالہ آڈٹ کا حکم دے دیا۔
عدالت نے نجی آڈٹ فرم کے پی ایم جی کو 5 ہفتوں میں آڈٹ مکمل کرنےکا حکم دیتے ہوئے آڈیٹر جنرل آفس اور پی ایس او سمیت تمام حکومتی اداروں کو آڈٹ فرم کےساتھ تعاون کرنے کی ہدایت کی۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے نیب کو ایم ڈی پی ایس او کی تعیناتی کی پانچ ہفتوں میں تحقیقات کا حکم دیا اور کہا کہ نیب 15 لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے افسران کی تعیناتیوں کی تفصیلی رپورٹ جمع کرائے۔