تیل کمپنیوں کے 63 ارب کے اسکینڈل کا انکشاف۔ 5 افسران گرفتار

کراچی: قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اور نجی تیل کمپنیوں میں 63 ارب روپے کے اسکینڈل میں ملوث 5 ملزمان کو کراچی، اسلام آباد اور ہنزہ سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

کراچی سے گرفتار 3 ملزمان کو ریمانڈ کے لیے احتساب عدالت میں پیش کردیا گیا جبکہ سینئر جنرل منیجر اور سابق جنرل منیجر پی ایس او کو قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد پیر کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

نیب کی جانب سے کراچی میں گرفتار کیے گئے ملزمان میں پی ایس او سی ایل کے سابق جنرل منیجر (سپلائی) اختر ضمیر، بائیکو پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (بی پی پی ایل) کے سابق چیف آپریٹنگ آفیسر کامران افتخار لاری اور بائیکو آئل پاکستان لمیٹڈ (بی او پی ایل) کے سابق سی ای او قیصر جمال شامل ہیں۔اس کے علاوہ دوسری کارروائی میں نیب نے اسلام آباد سے پی ایس او کے (ریٹیل، کنزیومر بزنس) کے سابق جنرل منیجر اور جن پیٹرولیم کے سی ای او سید ذوالفقار علی جعفری کو گرفتار کیا جبکہ ہنزہ گلگت بلتستان سے پی ایس او کے سابق جنرل منیجر مارکیٹنگ ڈاکٹر سید نظر اے زیدی کو حراست میں لیا گیا۔

نیب کے مطابق یہ پانچوں ملزمان پیٹرولیم مصنوعات کی خرید و فروخت میں بد عنوانی کے حوالے سے اسکینڈل میں مطلوب تھے اور پی ایس او نے آئل کمپنیوں کے ساتھ غیر قانونی معاہدے کرنے کا الزام لگایا تھا، جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا تھا۔

ملزمان نے آپس کی ملی بھگت سے 09-2008 میں بی پی پی ایل کو 2 ارب 43 کروڑ روپے کے خام تیل کی فراہمی کا غیر قانونی ٹھیکہ دیا تھا جبکہ اس سلسلے میں کوئی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔

نیب کے مطابق تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سابق پی ایس او حکام نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کے لیے 2012 میں بائیکو آئل پاکستان لمیٹڈ کے ساتھ غیر قانونی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی خرید و فروخت کا معاہدہ کیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بی او پی ایل 2013 میں کمیشن ہوا۔

اس غیر قانونی معاہدے کے نتیجے میں پی ایس او کو غیر معیاری مصنوعات فراہم کی گئی، جس سے قومی خزانے کو 60 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

نیب کے مطابق تحقیقات کے دوران نیب کے سامنے یہ بات بھی آئی کہ پی ایس او کی مینجمنٹ نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بی پی پی ایل کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی خرید و فروخت کا ایک اور معاہدہ کیا، جس کے تحت پی ایس او نے غیر معمولی سبسڈی کی شرح پر اعلیٰ کوالٹی کی درآمد شدہ (ایچ ایس ڈی اور پیٹرولیم) مصنوعات بی پی پی ایل کو فراہم کیں، جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

اس حوالے سے نیب حکام کا کہنا تھا کہ ’پی ایس او نے اپنے غیر قانونی ذاتی فائدے کے حصول کے لیے پیٹرولیم کے کاروبار میں اپنی منظورِ نظر کمپنیوں کو بڑھانے کے لیے بدنیتی کے ساتھ 3 معاہدے کیے‘۔

نیب کے مطابق اس پورے اسکینڈل کے ذریعے قومی خزانے کو 63 ارب 68 کروڑ 70 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔