واضح رہے کہ رضا محمود خان ’ آغاز دوستی‘ نامی ایک تحریک کے کنوینرہیں جو پاکستان اوربھارت کے نوجوانوں کے مابین خوشگوار روابط قائم کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی۔
اطلاعات کے مطابق رضا محمود خان کو سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد 2 دسمبر2017 کو ماڈل ٹاؤن میں ان کی رہائش گاہ سے اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔
اس ضمن میں ان کے دوست اوراہل خانہ کے علاوہ دیگر سماجی تنظیموں کے کارکنان کی جانب سے انہیں بازیاب کرانے کے لئے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
احتجاج کرنے والے افراد نے مبینہ طورپر رضا محمود خان کی جبری گمشدگی کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اسے امن اورانسانی حقوق کے لیے بلند ہوتی ہوئی آواز کو خاموش کرانے کی کوشش قراردیا تھا۔
اس سلسلے میں تھانہ ماڈل ٹاؤن کے سپرنٹنڈنٹ پولیس محمد عمران نے تصدیق کی کہ رضا خان کو پنجاب پولیس نے 10 روز قبل بازیاب کرایا تھا تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق رضا خان مکمل طورپرصحت یاب ہیں لیکن وہ سیکیورٹی خدشات کی بنا پرکوئی بیان دینے سے قاصرہیں۔
رضا محمود خان کی گمشدگی کے سلسلے میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں حکومت پاکستان سے ان کی باحفاظت واپسی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بیان میں ایمنسٹی ساؤتھ ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹرڈینوشکاڈیسانایک کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت رضا محمود خان کی گمشدگی کی تحقیقات کے لیے تمام ترضروری اقدامات کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا لاپتہ ہونے والے افراد زیادہ ترجبری طورپرگمشدہ کئے گئے ہیں، جو بین الاقوامی قانون کے تحت جرم ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں بھی پاکستان میں کئی سماجی کارکنان کے لاپتہ ہونے کے واقعات رونما ہوئے ہیں اورگزشتہ برس کے اوائل میں 5 سماجی کارکنوں کی گمشدگی پرپاکستان اوربیرون ملک زبردست بحث چھڑگئی تھی۔