لاہور: سپریم کورٹ نے پنجاب کمپنیز کرپشن کیس میں 56 کمپنیز میں کام کرنے والے 346 سرکاری افسران کو کل طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عوام کے پیسے کی بندر بانٹ کی اجازت نہیں دے سکتے۔
سپریم کورٹ میں پنجاب کی 56 کمپنیز سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر ڈی جی نیب لاہور اور چیف سیکرٹری پنجاب عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور پنجاب حکومت نے جواب جمع کرایا جس میں کہا گیا کہ 346 سرکاری افسران کو 56 کمپنیز میں بھیجا گیا جن کی فہرست نیب کو فراہم کردی ہے۔
سپریم کورٹ نے ان تمام افسران کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل طلب کرلیا اور اپنا موقف پیش کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے سرکاری شعبے سے کمپنیز میں جانے والے تمام چیف ایگزیکٹیو افسران کی فہرست بھی پیش کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سرکاری افسر کے طور پر کیپٹن عثمان پنجاب حکومت سے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے تنخواہ لے رہا تھا۔ لیکن کمپنی میں جا کر 14 لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے، ہم ان افسران کو دیئے جانے والے سارے پیسے واپس لے کر ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ عوام کے پیسے ہیں جن کی بندر بانٹ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اسپتالوں میں مریضوں کے لئے دوائیاں نہیں ہیں اور افسران عیاشیاں کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کمپنیز میں تین لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے تمام افسران کو کل طلب کر لیا۔