کراچی میں 4 ہزار168 سرکاری کوارٹرز پرقبضہ ہے،عدالتی رپورٹ

کراچی: سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی میں 4 ہزار168 سرکاری کوارٹرز پرقبضہ ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس مشیرعالم اورجسٹس مظہر عالم خان پرمشتمل بنچ نے سرکاری مکانوں پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

اس دوران سرکاری مکانوں میں رہائش پذیرافراد کی جانب سے درخواست کی گئی کہ حکومت کومکان خالی کرنے سے روکا جائے تاہم عدالت نے اس معاملے پرحکم امتناع دینے سے انکار کردیا۔

دوران سماعت ریٹائرڈ ملازمین کی جانب سے کہا گیا کہ ہم 20، 20 سال سے کوارٹرزمیں مقیم ہیں، اس پرجسٹس مشیرعالم نے کہا کہ کوئی 100 سال سے بھی رہ رہا ہو، قبضہ قانونی نہیں ہوجائے گا، حاضر سروس ملازمین کے سوا کسی کا سرکاری مکان پرحق نہیں ۔

اس موقع پرڈپٹی اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ کراچی میں 4 ہزار168 سرکاری کوارٹرز پر قبضہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مارٹن کوارٹرز میں 639 اورپٹیل پاڑہ میں 301 مکانوں پرقبضہ ہے، اسی طرح گارڈن اورپاکستان کوارٹرزمیں 49 مکانوں پر قبضہ ہے جبکہ باتھ آئی لینڈ سے قبضہ ختم کرالیا گیا ہے۔

عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مکینوں کو حتمی نوٹس جاری کرکے اشتہارات بھی شائع کرادیئے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روزحکومتی عملہ عدالتی احکامات کی روشنی میں پاکستان کوارٹرز خالی کرانے گیا تھا، جہاں اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اورمکینوں نے احتجاج کیا تھا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ پاکستان میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری گھروں کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد میں 197 سرکاری گھر خالی کرالئے گئے ہیں جبکہ 180 گھر خالی کرائے جارہے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولیس کے زیر قبضہ معاہدہ ہوا ہے، جس پر نیئر رضوی نے بتایا کہ وزارت ہاؤسنگ اور پولیس میں معاہدہ ہوا ہے، جس کے مطابق فلیٹس پولیس کو آلات کردیئے جائیں گے اوراسلام آباد پولیس سی ڈی اے کو ادائیگی کرے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مستحق لوگ گھروں سے باہر بیٹھے ہیں، ازخود نوٹس کا مقصد غیرقانونی قبضے سے گھر خالی کرانا ہے۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ خالی کرائے گئے گھر مستحق ملازمین کو الاٹ کردیئے گئے ہیں، اس معاملے پر71 مقدمات عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے تمام زیرالتوا مقدمات 15 دن میں نمٹانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ جج چھٹی پرہیں تو اسپیشل جج فیصلہ کریں۔