کچرا اٹھانے والی چینی کمپنی نےکام نہیں کیا بس پیسے لیے ،سندھ واٹرکمیشن

کراچی:سندھ ہائیکورٹ میں سندھ واٹر کمیشن کی سماعت کے دوران جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کچرا اٹھانے والی کمپنی کےکئی ماہ گزر گئے مگر معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا، مزید کوتاہی برداشت نہیں کریں گے، پہلے کوئی پکڑنے والا نہیں تھا، اب پیسہ نہیں کھانے دیں گے، سندھ کو تباہ کردیا گیا ہے، چینی کمپنی نے جو کام کرنا تھا وہ کیا نہیں بس پیسے لیے جارہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی زیر سربراہی واٹر کمیشن کی سماعت ہوئی۔ شوگر ملز میں ٹریٹمنٹ پلانٹ نہ لگانے کے معاملے پر مختلف شوگر ملز کے نمائندے اور مالکان کمیشن میں پیش ہوئے. سربراہ کمیشن نے کہا کہ آپ لوگ ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائیں ورنہ ہم فیکٹری سیل کردیں گے۔ کمیشن نے ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر غلام مرتضی کو شوگر ملوں کا دورہ کرنے اور ٹریٹمنٹ پلانٹس سے متعلق رپورٹ 3 ہفتے میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
واٹر کمیشن نے سندھ میں صفائی کی ابتر صورت حال کے معاملے کا بھی جائزہ لیا اور چینی کمپنیوں پر برہمی کا اظہار کیا۔ واٹر کمیشن نے چینی کمپنیوں کی کارکردگی پر برہمی اور عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کچرا اٹھانے والی چینی کمپنی کے مالک کو طلب کرلیا۔ کمیشن نے چینی کمپنی کے نائب مینیجر کو پاکستان میں کمپنی کے 15 سالہ قیام کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے چینی کمپنی کے وائس مینیجر سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ کھیل نہیں سکتے، ہمیں سارا گیم معلوم ہے، آپ مڈل مین ہیں اور کمیشن کو بھی دھوکا دے رہے ہیں، اس کمپنی کے مالک کو بلائیں ہم ان سے سوالات کریں گے، آپ لوگ چین کا نام بھی بدنام کررہے ہیں، چینی کمپنیاں معاہدے پر عمل درآمد نہیں کررہیں، تماشہ بنانا چھوڑو بلیک میل کرتے ہو؟ تحریری ضمانت دیں کہ صفائی کے معاہدے پر عمل درآمد ہوگا۔
کمیشن نے کہا کہ اگر مشینری خراب ہے تو دوسری خریدیں، ہم کراچی صاف چاہتے ہیں، کئی ماہ گزر گئے مگر معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا، مزید کوتاہی برداشت نہیں کریں گے، پہلے کوئی پکڑنے والا نہیں تھا، اب پیسہ نہیں کھانے دیں گے، سندھ کو تباہ کردیا گیا ہے، چینی کمپنی نے جو کام کرنا تھا وہ کیا نہیں بس پیسے لیے جارہے ہیں۔
چینی نمائندے نے کہا کہ کراچی میں ڈی ایم سی ملازمین کام ہی نہیں کرتے، چین میں ایک حکم پر ہر آدمی کام کرتا ہے، پاکستان میں الگ الگ حکم نامے اور زیادہ اداروں کی وجہ سے کام مشکل ہوتا ہے، کمیشن کے حکم کے باوجود پاکستان میں پلاسٹک کے تھیلے بند نہیں ہوئے۔