واشنگٹن:اس وقت پلاسٹک کا کچرا خشکی اور پانی کے ذخائر کو یکساں طور پر آلودہ کررہا ہے اور اب نئی پریشان کن خبر یہ آئی ہے کہ پلاسٹک کا ڈھیر مسلسل پڑا رہے تو اس سے عین گرین ہاؤس گیسوں جیسی گیس خارج ہوتی ہیں جو گلوبل وارمنگ اور آب وہوا میں تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کی وجہ بن رہی ہیں۔
امریکہ میں منووا کےمقام پر واقع یونیورسٹی آف ہوائی کے ماہرین نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ استعمال ہونے والا عام پلاسٹک زمین پر پڑے پڑے براہِ راست آب وہوا میں تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کی وجہ بن رہا ہے۔ لیکن یہ انکشاف محض اتفاقیہ طور پر ہوا ہے۔
یونیورسٹی کے شعبہ خرد حیاتی بحریات (میرین مائیکرو بائیالوجی) کی سائنسداں پروفیسر جینی رویور اور ان کے ساتھی سمندری پانی میں سے قدرتی طور پر میتھین کے اخراج پر تحقیق کررہے تھے کہ ان کے نتائج اس پلاسٹک کے برتن کی وجہ سے تبدیل ہونے لگے جس میں تحقیق کےلیے سمندری پانی رکھا گیا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے اپنی تحقیق کا رخ موڑ کر مختلف پلاسٹک پر غور شروع کردیا اور نوٹ کیا کہ کس قسم کا پلاسٹک کس مرحلے پر میتھین جیسی گرین ہاؤس گیس خارج کرتا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے سات اقسام کے پلاسٹک کو الٹراوائیلٹ شعاعوں کے ماحول میں رکھا، یہ شعاعیں دھوپ میں بھی موجود ہوتی ہیں۔
جب سات طرح کے پلاسٹک کو عین سمندری یا ساحل کے ماحول میں رکھ کر دیکھا گیا تو سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس ایسے پلاسٹک سے خارج ہوئی جو پوری دنیا میں عام ہے اور اسے پولی ایتھائلین یا ایل پی ڈی ای پلاسٹک کہا جاتا ہے۔