کوئی این آر او ہورہا ہے اور نہ کوئی لینا چاہتا ہے،شہبازشریف

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے کہا ہے کہ این آر او سے متعلق کوئی بات چیت نہیں چل رہی اورنہ کوئی این آر او دینا چاہتا ہے اورنہ کوئی لینا چاہتا ہے۔

اڈیالہ جیل میں نوازشریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ نوازشریف ، کیپٹن (ر) صفدر، مریم اور حنیف عباسی سے ملاقات ہوئی سب کے حوصلے بلند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی جیل میں قید قوم کے لئے بہت بڑی قربانی ہے، وہ لندن سے بیمار اہلیہ کو خدا حافظ کہہ کر آئے، وہ جانتے تھے قید کاٹنا پڑے گی اس لیے وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ قوم کے لیے آئے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ دھاندلی والا الیکشن ہوا ہے، الیکشن سے پہلے بھی پری پول دھاندلی ہوئی، الیکشن کے دن بھی دھاندلی ہوئی، آج صورتحال یہ ہےکہ الیکشن جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہی سراپا احتجاج ہیں۔

شہبازشریف نے کہا کہ دھاندلی کا شور پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میڈیا میں بھی ہے، دھاندلی زدہ الیکشن کو قوم نے رد کیا ہے، کل تمام اپوزیشن جماعتوں نے پر امن اور بھرپور احتجاج کیا، موسم کی خرابی کی وجہ سے احتجاج میں نہیں آسکا، لوگ کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت یہی ہے اورآئندہ بھی ایسے احتجاج ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دھاندلی پراسمبلی میں بھی بات ہوگی اور تمام جماعتیں اس پر اپنی رائے دیں گی، ہم اسمبلی میں الیکشن کے حوالے سے مبارکباد دینے نہیں جائیں گے بلکہ دھاندلی کی تحقیقات کا پہلا مطالبہ ہوگا۔

سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ نوازشریف ملک میں انتشار کی سیاست نہیں چاہتے لیکن جو حق اور ووٹ کے ساتھ دھاندلی ہوئی اس پرآواز اٹھانا، تحقیقات کا مطالبہ کرنا سب کا حق ہے، اس حق کو ہم آئینی و سیاسی طریقے سے منوائیں گے، اپیل نوازشریف کا بھرپور قانونی حق ہے، یہ جنگ لڑنے کی بات نہیں، اپنے حق کو لینے کے لیے قانونی اور سیاسی راستہ اختیار کریں گے۔

شہبازشریف کا کہنا تھاکہ اے پی سی میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن بنایا جائے جسے اس بات کی کھوج لگانے کا ٹاسک دیا جائے گا کہ الیکشن والے دن کیسے آر ٹی ایس بند کرایا گیا اورکیوں بند ہوا، پولنگ ایجنٹوں کو کیوں نکالا گیا؟ ان کی غیر موجودگی میں کس طرح ووٹوں کی گنتی ہوئی؟ مشینیں کیوں بند کرائی گئیں؟ ووٹر کی لائنیں سست روی کا شکار کیوں ہوئیں؟ اب تو عدالت عظمیٰ کا بھی بیان آگیا ہے، قوم کو یہ جاننے کا حق ہے۔

این آر او سے متعلق سوال پرشہبازشریف نے کہا کہ مذاکرات کے بغیر دنیا زندہ نہیں رہ سکتی لیکن کوئی این آر او نہیں ہورہا، نہ کوئی این آر او دینا چاہتا ہے اور نہ کوئی لینا چاہتا ہے، اس حوالے سے کوئی بات چیت نہیں چل رہی۔

پنجاب میں حکومت بنانے کے سوال پر شہبازشریف کا کہنا تھا کہ تمام تر زیادتیوں کے باوجود ہم پنجاب میں سب سے بڑی جماعت ہیں، ہمارے خلاف پرچے کاٹے گئے اور دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں، الیکشن سے دو دن پہلے رات کے اندھیرے میں ہمارے امیدوار کے خلاف فیصلہ سنایا گیا، اس طرح کے واقعات کا تحمل سے مقابلہ کیا، اس کے باوجود قومی اور پنجاب اسمبلی میں بھی (ن) لیگ کے امیدوار سب سے زیادہ جیتے ہیں۔

انہوں نے جہانگیر ترین کا نام لیے بغیران پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جہاز لے کر پیسوں کے تھیلے بھر کر منڈی لگائی، خریدو فروخت کا بدترین سیاسی بازارگرم ہوا جس سے انسانیت شرما گئی، ہم یہ کالا دھندا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، ہم نے خدمت کی ہے اس لیے کالے دھندے میں اپنا منہ کالا نہیں کراسکتا۔

مولانا فضل الرحمان کے 14 اگست کو یوم آزادی کے بجائے یوم جہدوجہد کے طورپر منانے کے سوال پر شہبازشریف نے کہا کہ کیا ہم 14 اگست کی خوشیوں کے بعد شفاف الیکشن کی خوشیاں مناسکتے ہیں تو اس کا جواب نہیں میں ہے۔