پاکستان میں جذام کا مرض ختم کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آج پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ 9 ستمبر 1929 کو جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 57 سال پاکستان میں انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیئے۔
اس عظیم اور باہمت خاتون نے اپنی آنکھوں سے جنگ کی تباہ کاریاں دیکھیں اور آسمان سے گرتے گولوں میں اپنے اکلوتے بھائی کو مرتے ہوئے دیکھا۔
جرمنی میں جنگ کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے ڈاکٹر رتھ فاؤ نے شادی نہیں کی اور جنگ سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے لگیں۔
بعد ازاں ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری تنظیم نے انہیں اسائمنٹ پر بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا جہاں انہیں مدر ٹریسا سے ملاقات کرنا تھی لیکن ویزا نہ ملنے کے باعث انہیں مشورہ دیا گیا کہ آپ پاکستان چلی جائیں اور پھر وہاں سے بھارت نکل جائیں۔
اس زمانے میں جرمنی کی سماجی تنظیم ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ پر سٹی اسٹیشن کے قریب چھونپڑ پٹی میں 1955 سے چھوٹی سی ڈسپنسری میں کام کر رہی تھی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کو ایک مرتبہ ڈسپنسری کا دورہ کرایا گیا تو وہاں کا منظر دیکھ کر ان سے نہ رہا گیا کیونکہ ڈسپنسری میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کا علاج صرف پٹیاں کرکے کیا جارہا تھا۔
ڈاکٹر رتھ نے جرمنی میں اپنی تنظیم کو لکھا کہ بھارت کے بجائے ان کا اصل کام پاکستان میں ہے اور وہ یہیں خدمات انجام دینا چاہتی ہیں اور یوں وہ پاکستان کی ہو کر رہ گئیں۔
1960 کی دہائی میں پاکستان میں جزام کے ہزاروں مریض تھے، اس وقت پاکستان میں کوڑھ کے مریض کو اچھوت سمجھا جاتا تھا تاہم ڈاکٹر رتھ فاؤ نے مسیحائی کا فرض ادا کیا اور اس کے خاتمے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔
انہوں نے 1963 میں کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ (آئی آئی چندریگر روڈ) پر کوڑھیوں کی بستی میں فری کلینک کا آغاز کیا۔ میری ایڈیلیڈ لیپرسی سینٹر کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا بعد میں کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی کلینک قائم کئے گئے۔
پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی اسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سینٹر بھی قائم کئے۔
ملک میں کوڑھ کے مرض کے خاتمے اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر 1969 میں انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز ستارہ قائداعظم سے نوازا گیا جبکہ برطانوی میڈیا ایوارڈ باھب کا اعزاز بھی دیا گیا۔
ڈاکٹر رتھ کی کوششوں کی بدولت 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا کہ پاکستان سے کوڑھ کے مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
ان کی خدمات کے پیش نظر انہیں پاکستانی شہریت جاری کی گئی، لیکن ڈاکٹر رتھ نے شہریت لینے سے انکار کردیا کیونکہ وہ جرمن شناخت ہی چاہتی تھیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ انہیں پاکستان میں دفنایا جائے۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ شدید علالت کے باعث 10 اگست کو بچھڑ گئیں لیکن ان کی خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں کوڑھ کے مرض کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے اور ڈاکٹر رتھ ہی کی خدمات کی بدولت پاکستان کو ایشیا میں سب سے پہلے اس مرض پر قابو پانے کا اعزاز حاصل ہوا۔