سول اسپتال مٹھی کے ذرائع نے بتایا ہے کہ بچوں کی اموات غذائی قلت اوروبا کے باعث ہوئی جس کے نتیجے میں رواں سال اب تک 393 بچے جان کی بازی ہارچکے ہیں۔
دوسری جانب محکمہ صحت کے مقامی حکام کے مطابق 70 سے زائد بچوں کو ضلع کے 6 مختلف مراکز میں داخل کیا گیا کیونکہ یہ بچے مختلف انفیکشن کا شکار ہیں۔
خیال رہے کہ صحرائی علاقے تھرپارکر میں رواں سال کم بارشوں کے باعث وہاں بدترین خشک سالی کا سامنا ہے اورعوام کا حکومت سندھ سے مطالبہ ہے کہ وہ خطے کو خشک سالی سے متاثرہ علاقہ قرار دے کر ہنگامی ریلیف کا آغاز کرے۔
شہریوں کا مطالبہ ہے کہ جو لوگ اس علاقے سے قریبی علاقوں میں اپنے مویشیوں کے ساتھ ہجرت کرنا چاہتے ہیں حکومت ان کی مدد کرے۔
واضح رہے کہ تھرپارکر میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث آئے روز بچوں کی اموات ہوتی رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جاتے۔
خیال رہے کہ سابقہ سندھ حکومت کی جانب سے تھر کے 2 لاکھ 87 ہزار غریب خاندانوں میں مفت گندم تقسیم کی منظوری دی گئی تھی اور سابق چیف سیکریٹری کو گندم کی تقسیم کا عمل فوری طورپربحال کرنے اوراپریل کے آخر تک اسے مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔
تاہم ان احکامات پرعمل نہیں ہوا تھا اورتھری باسیوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے جبکہ بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔
اس واقعے پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے ازخود نوٹس بھی لیا گیا تھا اورسابق سیکریٹری صحت کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا جبکہ تھر میں بچوں کی اموات کے معاملے پرغیرجانبدارماہر ڈاکٹروں پرمشتمل کمیٹی بنانے کا بھی کہا گیا تھا۔