اسلام آباد: نئی حکومت سے قبل بیوروکریٹس بیل آؤٹ بیکج بالخصوص پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پی) کے قرض کی ادائیگی کی تفصیلات کے حوالے سے کام کرنے میں مصروف ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بیورو کریٹس کی جانب سے تیار کیے جانے والے خاکے میں 2018 سے 2023 تک کے زرمبادلہ کے حوالے سے ممکنہ طور پر اٹھائے جانے والے اقدامات سے متعلق معلومات موجود ہیں۔
واضح رہے کہ سی پیک منصوبے کے لیے چینی قرض کی ادائیگی کا مسئلہ اس وقت منظر عام پر آیا جب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان عالمی ادارے کے بیل آؤٹ پیکج کی مدد سے بھاری چینی قرضوں کو ادا کرے گا۔
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر 47 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا تھا جس میں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام تک 22 ارب ڈالر کے منصوبے کے معاہدوں کی تکمیل ہوچکی ہے۔
توانائی سیکٹر میں 12 ارب 25 کروڑ ڈالر کے منصوبے کے معاہدے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ 11 ارب 34 کروڑ ڈالر کے منصوبوں کے معاہدوں کی تکمیل اب تک نہیں ہوئی۔
توانائی شعبے میں ہی 6 منصوبے فعال ہو چکے ہیں اور ان سے بجلی کی پیدوار بھی شروع ہوگئی ہے جس کے باعث پاکستان پر ان منصوبوں کی ادائیگی واجب الادا ہے، جو رواں مالی سال ادا کی جائے گی۔
اب تک پن بجلی کے 3، کوئلے کے 2 اور شمسی توانائی کے ایک منصوبے سے 3 ہزار 8 سو 39 میگا واٹ بجلی کی پیدوار جاری ہے۔
تاہم ان منصوبوں سمیت دیگر منصوبوں کی ادائیگی 25 سے 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، جس کی اقساط ایک سال میں 2 مرتبہ ادا کی جائیں گی، تاہم تخمینہ لگایا گیا ہے کہ سی پیک کے منصوبے کی ششماہی قسط 7 کروڑ 15 لاکھ ڈالر تک ہو سکتی ہے۔