اصغرخان کیس، سپریم کورٹ کا 4 ہفتوں میں پیشرفت کا حکم

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے تفتیش میں پیش رفت کی رپورٹ جمع کرائی ہے مزید تفتیش ابھی جاری ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سماعت میں دیے گئے حکم کے مطابق تفتیش میں پیشرفت کا بتائیں ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکم میں وزارت دفاع کو ایف آئی اے سے تفتیش میں تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ تفتیش کس مرحلے میں ہے؟ ۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ تین افراد کے بیان قلمبند کرلئے ہیں، میرظفراللہ جمالی، حاصل بزنجو اورلیاقت جتوئی کے بیانات قلمبند ہونا ہیں وہ الیکشن میں مصروف تھے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دو ماہ پہلے یہ حکم دیا تھا، اس کیس میں دو ہزار تیرہ کا فیصلہ ہے، نظرثانی بھی خارج ہو چکی ہے، جیسے بھی کرنا ہے تفتیش کو مکمل کریں ۔

ایف آئی اے کے ڈی جی نے بتایا کہ ہم نے نوے کی دہائی میں سیاست دانوں میں رقم تقسیم کرنے والے فوجی افسران کا ریکارڈ وزارت دفاع سے مانگا تھا تاکہ اس سے دیگر افراد کے بیانات کا موازنہ کیا جاسکے۔ وزارت دفاع کے ڈائریکٹر کرنل فلک شیرنے بتایا کیس میں ملوث افسران کے بارے میں کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کے ٹرائل کا معاملہ ملٹری اتھارٹی کو بھیجا جائے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ملٹری اتھارٹی کی جانب سے کیا پیشرفت ہے؟ ۔ کرنل فلک شیر نے جواب دیا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کیلئے قانونی ضرورت پوری کرنا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو اعتماد میں لیں کہ دو ماہ میں کون سی قانونی ضرورت پوری کی اور کیا پیشرفت ہے؟۔ کرنل فلک شیر نے کہا کہ کابینہ فیصلے کے مطابق وزارت داخلہ نے ابھی تک ملٹری اتھارٹیز کو نہیں لکھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کا فیصلہ آپ کو معلوم ہے تو پھر کیوں نہ کیا؟ اگر وزارت دفاع نے جواب نہ دیا تو متعلقہ فوجی افسران کو بلائیں گے، عدالت میں آنے سے کوئی شخص مستثنیٰ نہیں، فیصلے پر عمل درآمد ہونا ہے ۔ بتایا جائے کتنوں دنوں میں پیشرفت کر کے رپورٹ دیں گے ۔ کرنل فلک شیر نے بتایا کہ چار ہفتے کا وقت دیا جائے ۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے نے وزارت دفاع سے پانچ چھ افسران کی معلومات مانگی ہیں وہ آج تک نہیں دی گئیں ۔ کرنل شیر نے کہا کہ ایف آئی اے نے صرف نام دیے تھے عہدے اور یونٹ کی تفصیلات نہیں تھیں ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا ایف آئی اے نے دیگر افراد سے تفتیش کی ہے؟ ان افراد نے تفتیش میں تعاون کیا ہے؟ ۔ ڈی جی نے بتایا کہ تعاون کیا جا رہا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تفتیش نہیں ہوسکتی تو ایف آئی اے بتا دے، یا وزارت دفاع تعاون نہیں کر رہی تو بھی بتا دیا جائے، اس صورت میں ہم خود عمل کرالیں گے ۔

عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ افسران کا ریکارڈ لے کر چار ہفتوں میں پیشرفت سے آگاہ کیا جائے۔