خیال رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے یہ ریمارکس دیئے گئے تھے کہ پاناما جے آئی ٹی میں انٹرسروسزانٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے اہلکاروں کو چوہدری نثار نے شامل کرایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی میں خفیہ اداروں کے نمائندوں کو انہوں نے شامل نہیں کیا تھا۔
تاہم اس معاملے پرجمعرات کو ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ پاناما جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے ہی بنائی تھی، ان کے کہنے کا مقصد ڈان لیکس جے آئی ٹی تھا،ان سے غلطی ہوگئی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تصیح کی جائے، لگتا ہے کسی کو مجھ سے زیادہ محبت ہے، ایک انگریزی اخبارنے کیا چھاپا ہے، کہاں ہے اس اخبار کا رپورٹر؟
اس پر سپریم کورٹ میں موجود رپورٹر نے عدالت کے سامنے کہا کہ وہ اس عمل پر معافی مانگتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر ٹاک شوز بھی ہوگئے، تھپڑ لگا کر معافی مانگنے کا کیا فائدہ ، آپ کے اخبار کے مالک کل لاہور عدالت میں پیش ہوں۔
اس دوران اس اخبار کے رپورٹر نے عدالت سے معافی کی استدعا کی، جس کے بعد عدالت نے رپورٹر کی معذرت پر معاملہ نمٹا دیا۔
چوہدری نثار نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ جے آئی ٹی اعلیٰ عدلیہ کے تین رکنی بنچ کے حکم کے تحت تشکیل دی گئی اور فوجی افسران کی شمولیت بھی اسی فیصلے کا حصہ تھی۔
انھوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ میرا یا وزارتِ داخلہ کا نہ تو جے آئی ٹی کی تشکیل میں کوئی کردار تھا اور نہ ہی فوجی افسران کی شمولیت کے حوالے سے کوئی عمل دخل تھا اور نہ ہی آگاہی یا کسی قسم کی مشاورت شامل تھی۔
سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے تحت ازخود متعلقہ اداروں جن میں ایف آئی اے، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، نیب اور ایف آئی اے سے 3،3 نام مانگے تھے۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) سے بھی سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے خود ہی رابطہ قائم کیا تھا۔
چوہدری نثارنے کہا کہ اس تمام عمل میں کسی وزارت یا حکومتی شخصیت کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔