کیا ہمیں نہیں معلوم حکومتی اکاﺅنٹس میں کیا ہوتا ہے۔فائل فوٹو
کیا ہمیں نہیں معلوم حکومتی اکاﺅنٹس میں کیا ہوتا ہے۔فائل فوٹو

منی لانڈرنگ کیس،تمام ملزمان کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کا حکم

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ ازخود نوٹس کے تحریری حکم میں تمام نامزد ملزمان کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کےذریعے منی لانڈرنگ ازخودنوٹس کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے جس کے مطابق جے آئی ٹی کی تشکیل سے متعلق آئندہ سماعت پرفیصلہ کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے حکم نامے میں تمام نامزد ملزمان کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کیلئے کہا ہے جب کہ کیس کی سماعت 28 اگست کو ہوگی۔

سپریم کورٹ نے علی کمال مجید ، مصطفی ذوالقرنین مجید اور نمرمجید کے نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا ہے جبکہ انورمجید اور غنی مجید کے نام پہلے سے ای سی ایل میں موجود ہیں۔

ایک نجی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے حکام نے بتایا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئی تھیں۔

حکام کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اوراومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اوریہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اوردستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پرڈائریکٹرایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اورمارچ 2015 میں 4 بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

 

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طورپر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ درج نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر2017 میں ایک بارپھراسٹیٹ بینک کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اوریو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے 4 اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھرانکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتدا میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصرلوتھا، طحٰہ رضا، انورمجید اوراے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کئے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کئے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پرمقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کرانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصرلوتھا کے اکاؤنٹس میں7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصرلوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔

ناصرلوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طورپراسٹیٹ بینک میں جمع کرائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اورکچھ شخصیات رقم جمع کراتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کرائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اورمنی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اورمنی لاڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا جبکہ دیگرافراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا ہے۔