اسلام آباد:مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر عید جیل میں منائیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ مؤخر کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے شریف فیملی کی سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت کی۔
سماعت میں کہا گیا کہ سزا معطلی کا فیصلہ اپیلوں کے ساتھ سنایا جائے گا۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف ، مریم نواز اورکیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس میاں اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بنچ میں نوازشریف، مریم نوازاورکیپٹن (ر) صفدرکی سزامعطلی کی درخواستوں کی سماعت کی تھی، سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نےاپنے ریمارکس میں کہاتھا کہ سپریم کورٹ نے حتمی نتیجہ اخذ کئے بغیر کیس ٹرائل کورٹ کوبھیجا اورہمیں ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگز کو دیکھنا ہے۔
نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر سردارمظفرعباسی نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پرشریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائرکئے، عدالت عظمیٰ کےحکم پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی، لندن فلیٹس نیلسن اورنیسکول کے نام پرتھے، ہم نے دستاویزات سے ثابت کردیا ان کمپنیوں کے مالک نوازشریف ہیں، یہ جائیدادیں بے نامی دار کے نام پر تھیں، نیلسن کمپنی فلیٹ نمبر16 کی 1995 سے مالک ہے، یہ ٹائٹل دستاویز13 دسمبر2017 میں جاری ہوئی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ نیلسن لمیٹڈ کی ملکیت کسی شخص کی تو نہیں، اس پرنیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ فلیٹس جس کے قبضے میں ہیں کمپنی کا مالک بھی وہی ہوگا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ اپنے آپ کوسزا معطلی تک محدود رکھیں، اس پر سردارمظفرعباسی نے کہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ یہ جائیداد ان کی ملکیت ہے، ایم ایل اے کے ذریعے معلوم ہوا کہ نیلسن اور نیسکول مریم کی ملکیت ہے، دستاویزکے مطابق فلیٹ نمبر 16 اے کی ملکیت31 جولائی 1995 سے نیلسن کےپاس ہے، 2006 میں بینیفشل مالک ہونے کو ظاہر کرنا ضروری تھا، عدالت میں پیش کی گئی 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔
جسٹس اورنگزیب نے استفسار کیا کہ2012 میں یہ خط لکھا کیوں گیا تھا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایف آئی اے نے باہر رجسٹرڈ کمپنیوں سے متعلق معلومات کیلئے عمومی خط لکھا تھا، میں ٹرائل کورٹ میں جمع شدہ دستاویزات کے حوالے دے رہا ہوں۔
جسٹس اورنگزیب نے مزید استفسارکیا کہ سپریم کورٹ میں والد نے بچوں کے مؤقف کو اختیار کیا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان کی تقاریر میں وضاحتیں دی گئی ہیں کہ جائیدادیں کیسے بنائیں، نوازشریف نے اولاد کے مؤقف کو غلط قرارنہیں دیا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ دفاع کا کیس ہے ضروری عوامل کی تفتیش نہیں کی گئی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ان کا مؤقف ہے، معاہدہ سرے سے موجود ہی نہیں،12 ملین درہم کی بات بھی درست نہیں ، ان کا ذریعہ بھی ہم نے غلط ثابت کیا اورثبوت بھی لائے، ہم معلوم ذرائع آمدن کا ثبوت بھی لائے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ وہ معلوم ذرائع آمدن کیا ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ وہ معلوم ذرائع آمدن فلو چارٹ ہیں، جسٹس اطہر نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا دکھانا چاہتے ہیں؟ سردار مظفر نے کہا کہ میں آپ کو1980 کا جعلی معاہدہ دکھانا چاہتا ہوں۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹرنے 1980 کے معاہدے سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ کی تفصیلات سنائیں۔
جسٹس اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے منی لانڈرنگ کی اپیل نہیں، سزا معطلی کی حد تک رہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ جو ٹرائل کورٹ میں ہوا وہ بتائیں، ہمیں صرف ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ دیکھنا ہے، سپریم کورٹ نے نتیجہ نہیں نکالا ،معاملہ ٹرائل کورٹ کوبھیجا، ہمیں اب صرف ٹرائل کورٹ کا نتیجہ ہی دیکھنا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ٹرائل کا مطلب کیا تھا؟ کیا ٹرائل کورٹ کو صرف سزا کو اسٹیمپ کرنا تھا؟ آپ سزا معطلی کے معاملے تک رہیں، ہمیں امید ہے آپ ہم مطمئن کریں گے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ تفصیلات میں جارہے ہیں، اگرآپ اس آبزرویشن پر جائیں تو سزا ہونا ہی ہے، سپریم کورٹ نے حتمی نتیجہ اخذ کئے بغیر کیس ٹرائل کورٹ کوبھیجا، ہمیں ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگز کو دیکھنا ہے۔
واضح رہےکہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزائیں سنائی تھیں جس کے بعد تینوں شخصیات اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔