اسلام آباد:چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ بیرون ملک رقم واپس لانے سے متعلق جلد اچھی خبر سامنے آئے گی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں لاپتہ افراد کے حوالے سے بریفنگ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب کا کردار سب کے سامنے ہے، کارکردگی پر کیا بات کروں۔
چیف جسٹس کی جانب سے بلائے جانے پر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میرا ادارہ ہے، چیف جسٹس سے ملاقات خوشگوار رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے ریفرنس دائر کرنے کو خفیہ رکھنے کا نہیں کہا بلکہ چیف جسٹس نے نیب کی تفتیش کو صیغہ راز میں رکھنے کا کہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ میں نے پبلک کرنی ہوتی تو کب کا کر چکا ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ریفرنس عدالت میں جانے کے بعد نیب کا کام ختم ہو جاتا ہے۔
قبل ازیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے لاپتہ افراد کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے کیسز کی تعداد 131 ہے، وہاں ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر بھی لوگوں کو اغواء کر لیا جاتا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ حربیار مری اور براہمداغ بگٹی کے ساتھ بےشمارلوگ بیرون ملک گئے، جو لوگ حربیار اور براہمداغ کے ساتھ گئے ان کے نام بھی لاپتہ افراد میں شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جو لوگ جنیوا میں موجود ہیں ان کے نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست سے نہیں نکالےگئے، اس کے علاوہ صوفی محمد، منگل باغ اور مولودی فضل اللہ کے ساتھ جانے والے بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ ہمسایوں سے نہیں پوچھ سکے ننگرہار اور پکتیا کی جیلوں میں کتنے پاکستانی ہیں، معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ان جیلوں پر افغان حکومت کا بھی کنٹرول نہیں ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے معاملےکو سیاسی بنایا گیا، ایک بندہ لاپتہ ہو جائے تو فیملی کے ہمراہ اسے اجاگر کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں مسنگ پرسنز کمیشن کا اعزاری چیئرمین ہوں اور بلوچستان کے چپے چپے سے واقف ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2011 سے اب تک 5290 لاپتہ افراد کے کیسز سامنے آئے اور جولائی 2018 تک 3462 لوگ لاپتہ ہیں۔