اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کاکہنا ہےکہ گزشتہ روز جی ایچ کیو میں ملاقات کے دوران آرمی چیف نے واضح کیا کہ فوج دیگر اداروں کی طرح حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ہم ملک میں استحکام چاہتے ہیں، تمام اداروں کی مشترکہ حکمت عملی سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے، حکومتی پالیسی ذاتی نہیں بلکہ ریاست کے تمام اداروں اور پارلیمان کی تجاویز اور عوام کے اعتماد پر مبنی ہوگی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کی کال واپس لےلی گئی، پاکستان کی کوششوں کے بعدنیدرلینڈ نے مقابلہ منسوخ کرنےکی اطلاع دی، ہالینڈ کی حکومت ان خاکوں کے حق میں نہیں تھی، خاکوں سے امت مسلمہ میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو گزشتہ رات بہت بڑی سفارتی کامیابی ملی، گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر عالمی لائحہ عمل بنانےکی ضرورت ہے، وزیراعظم نے وزیر خارجہ کو یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا کہا ہے۔
وزیر اطلاعات نے بتایا کہ کل جی ایچ کیو میں وزیراعظم کو اہم بریفنگ دی گئی جس کا تعلق ملکی دفاع، سلامتی اور حساس معلومات سے تھا، کل تمام ممالک کے ساتھ تعلقات کی صورتحال اور اسٹریٹیجک تعلقات پر بھی تفصیلی بات ہوئی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ادارے نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ ان کی کتاب بھی ایک ہے، تمام اداروں کی مشترکہ حکمت عملی سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں، جی ایچ کیو میں ملاقات کے دوران آرمی چیف نے واضح کیا کہ فوج دیگر اداروں کی طرح حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ کل کشمیر کے معاملے پر بھی بات ہوئی، کشمیر پر پاکستان اور بھارت میں جنگیں ہوچکی ہیں اس لیے کشمیر کے معاملات کے بغیر کوئی اسٹریٹیجک گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے، تمام ملکوں کے ساتھ تعلقات کو آگے لے کر بڑھنا چاہتے ہیں، گزشتہ دور حکومت میں مودی، نواز اور اردوان تعلقات تھے لیکن سابقہ اور پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں میں فرق ہوگا، ہماری حکومت میں ریاست کی سطح پر تعلقات ہوں گے اور تمام اسٹیک ہولڈر کو ساتھ رکھا جائیگا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھاکہ پاکستان نے ترکی اور او آئی سی کو بھی سفارتکاری میں شامل کیا ہے، ہم بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات اور امن چاہتے ہیں، بھارت کےساتھ تعلقات میں استحکام ضروری ہے، ہم پاکستان میں استحکام چاہتے ہیں اور افغانستان میں بھی استحکام کے خواہاں ہیں، آرمی چیف افغانستان کے دورے کرچکے ہیں اور انہوں نے افغان صدرکو مکمل تعاون کا بھی کہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کا پاکستان میں بہت بڑا اقتصادی مفاد ہے، سی پیک چین اور پاکستان کےدرمیان جیواکنامک معاہدہ ہے، سی پی کے تحت 42 ارب ڈالر کے مزید پروجیکٹ آنے ہیں، چین کے ساتھ کوئی اسٹریٹیجک معاہدہ نہیں، اقتصادی معاہدے کو آگے بڑھائیں گے، چائنا کے ساتھ معاشی رشتہ برقرار رہنا چاہیے لیکن چین سے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ روس سے تعلقات نہ ہوں اور امریکا سے تعلقات خراب ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ روس بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرے۔