اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ڈی پی او پاک پتن تبادلہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کررہا ہے۔ عدالتی حکم پر خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا پیش ہوگئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ آپ نے ڈی پی او کو وزیر اعلی ہاؤس جانے سے کیوں نہیں روکا، آپ وزیر اعلی ہاؤس میں بھی بات کر سکتے تھے کہ میرے افسر کو براہ راست نہ بلائیں۔ آپ نے کہا آج حاکم کے حکم کی تعمیل فرما دیں۔ جانتے ہیں اگر آپ نے بدنیتی اور ڈکٹیشن کی بنیاد پر حکم جاری کیا تو پھر کیا ہو گا؟۔
آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ میں عدالت کے رحم و کرم پر ہوں، میں اس وقت اسلام آباد میں تھا، مجھے جب بتایا گیا ڈی پی او راستے میں تھے۔ حالات کے تناظر میں مجھے حقائق جاننے کیلئے تحقیقات کروانا پڑی، ڈی پی او نے مجھ سے حقائق چھپائے، لڑکی کو روکنے اور چھوڑنے کے شواہد ملے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ فائل کہاں ہے جس میں ٹرانسفر کے احکامات ہیں، جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ زبانی حکم پر تبادلہ کیا گیا۔ عدالتی استفسار پر پی ایس او حیدر نے کہا کہ میں اس وقت وہاں موجود نہیں تھا، وزیر اعلی نے ڈی پی او اور آر پی او کو چائے کے لئے بلانے کے لئے کہا تھا۔ ڈی پی او کو فون تبادلے کا علم ہونے کے بعد کیا۔
چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ کے پی ایس او سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کس کے کہنے پر آپ لوگوں کو بلاتے رہے، وزیراعلی عدالت میں کیوں موجود نہیں، وزیراعلی کیا خدا ہے، ہم وزیراعلی کو بھی بلائیں گے، یہ لوگ کون ہوتے ہیں ایسے حکم دینے والے۔ پولیس نے بیٹی کے وقار کو برقرار نہیں رکھا، پولیس افسران کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، احسن جمیل کے خلاف بھی کارروائی ہو گی، جس نے وزیر اعلی سے رابطہ کر کے پولیس افسران کو دھکیلا۔
آئی ایس آئی کے کرنل طارق نے عدالت کو بتایا کہ رضوان گوندل اور میں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں، مجھے ایک مشترکہ دوست نے واقعے کے بارے میں بتایا، میں نے رضوان گوندل کو ذاتی حیثیت میں فون کیا۔
خاور مانیکا نے عدالت کے روبرو بیٹی کے ساتھ پولیس کی بدتمیزی کا واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ پولیس افسران شراب پی کر ڈیوٹی کر رہے تھے، پاک پتن پہنچا تو بچی کانپ رہی تھی، میں نے ڈی پی او کو واقعے کے بارے میں بتایا لیکن انہوں نے 22 اگست تک کچھ نہیں کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے خاور مانیکا سے واقعے پر معذرت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر کوئی عدالت سے جھوٹ بول رہا ہے، آئی جی پنجاب وزیر اعلی ہاؤس کے معاملے پر مکمل تحقیقات کریں۔
سماعت سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے خاور مانیکا نے کہا کہ کیس پر کوئی بات نہیں کروں گا، جو بات ہوگی وہ عدالت میں ہوگی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے خاور مانیکا کے علاوہ احسن جمیل اقبال گجر، آئی جی پنجاب سید کلیم امام ، آرپی او ساہیوال ، ایڈیشنل آئی جی پنجاب ابو بکر خدا بخش، وزیر اعلیٰ کے پی ایس او حیدر علی اور سی ایس او عمر کے علاوہ آئی ایس آئی کے کرنل طارق فیصل کو بھی طلب کیا تھا۔