سپریم کورٹ میں پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ بیرون رقم کی واپسی کے حوالے سے پیشرفت پر مطمئن نہیں اور اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے والوں پرمنی لانڈرنگ کا کیس بنتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں آڈٹ کمپنی اے جی فرگوسن نے رپورٹ عدالت میں جمع کرائی، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا یو اے ای میں پاکستانیوں کے 150بلین ڈالر کے اکاؤنٹس اور جائیدادیں ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ بیرون ملک اکاؤنٹس کی تحقیقات کیلئے اسٹیٹ بینک نے ٹی اوآر جمع کرادیئے، 200 افراد کو ایف بی آر نوٹس جاری کرچکا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نوٹس کی کاپی اور فہرست عدالت میں جمع کرادیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا 100 افراد بتا دیں، جنہوں نے منی لانڈرنگ سے بیرون ملک جائیداد بنائیں ، ان افراد کا بندوبست کرنا ہمارا کام ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ بیرون ملک اکاؤنٹس کی تحقیقات کیلئے اسٹیٹ بینک نے ٹی اوآر جمع کرادیئے، 200 افراد کو ایف بی آر نوٹس جاری کرچکا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نوٹس کی کاپی اور فہرست عدالت میں جمع کرادیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا 100 افراد بتا دیں، جنہوں نے منی لانڈرنگ سے بیرون ملک جائیداد بنائیں ، ان افراد کا بندوبست کرنا ہمارا کام ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ایسے 250 افراد کی نشاندہی پہلے بھی ایف بی آر کرچکا ہے، جس پر جسٹس ثاقب نثار نے منی لانڈرنگ کرنے والے 250افراد کے کوائف عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کوریا نے 17فیصد ٹیکس پر رقم واپس لانے کی اجازت دی تھی ، آپ بتا رہے تھے وہ بہت کامیاب رہا، ہمیں بھی چاہیے ان پر بھاری بلکہ پینل ٹیکس لگائیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس میں کہا کہ ایسا پیسہ زیادہ تر ہنڈی کے ذریعے جاتا اور آتا ہے ، ایسے لوگ پاکستان میں ہوتے ہیں اور کاروباربھی یہی ہوتے ہیں، کارروائی کرنے سے ہی ٹیکس ڈالر کی صورت میں ملیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے بیرون ملک اثاثے رکھنے والے 200 افراد کی فہرست سر بمہر لفافے میں دینے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔