چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارنے ریلوے میں خسارے اور مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سعد رفیق سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب غرور گھر چھوڑ کر آیا کریں، غصہ کس بات کا ہے، جو پوچھا جا رہا ہے، اس کا جواب دیں۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ریلوے میں اربوں روپے خسارے سےمتعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔
کیس کی سماعت کے دوران عدالتی حکم پر سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے سعد رفیق سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ نے آڈٹ رپورٹ دیکھی ہے ؟
اس پر خواجہ سعد رفیق نے مؤقف اختیار کیا کہ ایک ہزار صفحات کی آڈٹ رپورٹ پر کیسے جواب جمع کراؤں، میں کوئی اکاونٹس افسر نہیں، مجھے بتائیں میرے متعلق رپورٹ میں کیاکہا گیا ہے، کیا میں نے بدعنوانی کی یا کرپشن کی ،میرے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب غرور گھر چھوڑ کر آیا کریں، اپنا رویہ درست کریں، آپ کویہاں بلایا گیا ہے، جو پوچھا جا رہا ہے، صرف اس کا جواب دیں،کیا آپ گھر سے سوچ کر آئے تھے کہ عدالت کی بے احترامی کرنی ہے۔
اس پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اللہ گواہ ہے، میں عدلیہ کی بے احترامی کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا ،میں ریلوے کو جتنا ٹھیک کر سکتا تھا، کرنے کی کوشش کی، میرا الیکشن ہے اور ایک ہزار صفحات کی رپورٹ کاجواب مانگا جا رہاہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر بے عزتی کروانے نہیں آیا،استدعاہے،ایک ماہ کی مہلت دی جائے، میں شاباش لینے آتا ہوں، آگے سےڈانٹ پڑ جاتی ہے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ جواب جمع کرائیں پھر دیکھتے ہیں ،شاباش ملتی ہے یا نہیں، عدالت نے خواجہ سعد رفیق کو جواب جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔