تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کردیا گیا جس میں وزیراعظم، وزرا اور گورنرز کو حاصل ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیرخزانہ اسد عمر نے سپلیمنٹری فنانس بل پیش کر تے ہوئے کہا کہ فیصلہ کرنا ہےکیا ہم اسی طریقے سےآگے چلتے رہیں گے یا آگے چلنے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں کیا گیا اضافہ واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ہمارے خیال میں یہ متوسط طبقے کے ساتھ ظلم ہے، روپے کی قدر میں کمی سے پٹرول مزید 20 روپے مہنگا ہو سکتا ہے۔
اسد عمر نے وزیراعظم، وزرا اور گورنرز کو ٹیکس سے حاصل استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ان اعلیٰ حکام سے بھی ٹیکس لیا جائے گا، پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، مہنگے موبائل فونز پر ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے، بجٹ میں سگریٹ پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، 1800 سی سی سے زیادہ کی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح 10 سے بڑھا کر 20 فیصد کردی گئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ریگولٹری ڈیوٹی کی مد میں ایکسپورٹ انڈسٹری کو 5 ارب روپے کا ریلیف دے رہے ہیں، پٹرولیم لیوی ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے اور 8276 گھروں کی تعمیر کیلیے ساڑھے 4 ارب روپے ریلیز کیے جائیں گے۔
فنانس بل میں چار لاکھ روپے سالانہ آمدن والے افراد کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے، چار سے آٹھ لاکھ آمدن پر ایک ہزار روپے ٹیکس، 8 سے بارہ لاکھ پر دو ہزار روپے، بارہ لاکھ سے 24 لاکھ سالانہ آمدن پر 5 فیصد ٹیکس، 24 سے 30 لاکھ روپے آمدن پر 60 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ 30 لاکھ سے زائد آمدن پر 15 فیصد ٹیکس، 40 سے 50 لاکھ آمدن پر 25 فیصد اور 50 لاکھ سے زائد آمدن پر 29 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اسد عمر نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، حکومت نے نان فائلرز پر بوجھ ڈالا ہے، تمام اقدامات کے نتائج آنے میں تھوڑا وقت لگے گا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ 18 سے 21 ارب ڈالرز ہے، تنخواہ دارطبقے کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس 25 فیصد کردیا ہے۔