اسلام آباد: احتساب عدالت میں آج العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
دوسری جانب عدالت نے 31 مئی 2017 کے ایم ایل اے کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔
احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران نواز شریف کو سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت لایا گیا۔
سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کے روبرو کہا کہ آج پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء سے جرح مکمل کرنے کے لیےکہا گیا تھا، لیکن یہ اُس صورت میں ممکن ہوگا اگر پورا دن مل گیا۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ نیب نے کل بھی ہائیکورٹ میں دلائل مکمل نہیں کیے اور آج تک مزید مہلت مانگ لی، آج پھر ہائیکورٹ جانا ہے، اس لیے جرح کے بجائے ایم ایل اے سے متعلق درخواست پر دلائل سن لیں۔
جس پر احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ آپ جرح شروع کریں، جتنی جرح ہوگئی ٹھیک، باقی ہائیکورٹ سے واپسی پر کر لیں۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے اعتراض کیا کہ خواجہ حارث ڈھائی تین ماہ سے ایک ہی گواہ پر جرح کر رہے ہیں۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ پتہ نہیں یہ مذاق کر رہے ہیں یا سنجیدہ ہیں؟
خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ یہ خود جرح میں تاخیر کا سبب بن رہے ہیں، کبھی بلاوجہ اعتراضات کرتے ہیں اور کبھی سپریم کورٹ بھاگ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا،نیب میرا جرح کا حق ختم کرنے کی درخواست دائر کر دے، اگر عدالت سمجھتی ہے کہ جرح غیر ضروری ہے تو ان کی زبانی درخواست پر یہ حق ختم کر دے۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ خواجہ صاحب غصہ کر رہے ہیں۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں غصہ نہیں کر رہا بلکہ نیب کی بات ماننے کا کہہ رہا ہوں۔
انہوں نے نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دو ہفتے بعد اچانک یہاں آگئے ہیں اور ان کو ہدایات دے کر بھیجا گیا ہے۔
اس موقع پر احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ میں چلا جاتا ہوں، آپ یہاں لڑائی کر لیں۔
جج ارشد ملک نے مزید کہا کہ اب میڈیا میں بھی یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ جرح کو اتنے دن ہو گئے ہیں۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر آپ نے میڈیا سے متاثر ہونا ہے تو پھر یہ کیس چھوڑ دیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے اس موقع پر کہا کہ ہائیکورٹ میں خواجہ صاحب کے دلائل تو مکمل ہو چکے، اب نیب کے دلائل باقی ہیں۔
جس پر خواجہ حارث نے پوچھا کہ اب یہ مجھے بتائیں کہ میں وہاں جاؤں یا نہیں؟ جوابی دلائل یا عدالتی سوال پر جواب دینا پڑ سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اس صورتحال کے بعد اس پوزیشن میں نہیں کہ آج کیس چلا سکوں۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ یہ تو پھر بلیک میلنگ ہوگئی کہ کیس آپ کی مرضی سے چلے گا۔
جس پر احتساب عدالت کے جج نے خواجہ حارث سے کہا کہ ‘آپ دس منٹ کی بریک لے کر آ جائیں، ہم سماعت میں وقفہ کر دیتے ہیں۔
ایم ایل اے کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا
10 منٹ کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے 31 مئی 2017 کے ایم ایل اے کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ ایم ایل اے کی مصدقہ نقل ریکارڈ پر لاکر اصل دستاویز گواہ کو واپس کردی جائے اور ایم ایل اے کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کے باوجود پبلک نہ کیا جائے اور نہ اس کی کاپی کسی کو جاری کی جائے۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالتی ریکارڈ پر آنے کے بعد کاپی فراہم نہ کرنے کی درخواست کیسے کی جا سکتی ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملزم کو کاپی فراہم نہ کرنا ملزم کے بنیادی حقوق اور فیئر ٹرائل کی نفی ہوگا۔سماعت کے بعد احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت 24 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔