کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد سے متعلق پولیس کی رپورٹس غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے پولیس اور قانون نافذ کرنے والےاداروں کو عملی اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ میں 60 سے زائد لاپتا افراد کی بازیابی کی درخواستوں پر سماعت ہوئی،عدالت نے لاپتا افراد کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے جے آئی ٹی بنتی ہیں، پھر بھی لوگ بازیاب نہیں ہوتے، سندھ پولیس ہر سماعت پر تحقیقاتی افسر تبدیل کرتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ کسی کا عزیز لاپتا نہ ہو۔
دوران سماعت پولیس کی جانب سے لاپتا افراد سے متعلق رپورٹس پیش کی گئیں جنہیں عدالت نے غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے پولیس اور قانون نافذ کرنے والےاداروں کو عملی اقدامات کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے آئی جی سندھ ، محکمہ داخلہ، ڈی جی رینجرز اور دیگرحکام کو پیش رفت رپورٹ جمع کرانے اور 4 شہریوں کی بازیابی کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔
چار لاپتا شہریوں میں غازی خان، محمد جمیل ، شیر افضل اور شیراز شامل ہیں، عدالت نے بازیابی سے متعلق تحقیقات کے لیے کم سےکم ڈی آئی جی کی پوسٹ کے افسر کو مقرر کرنے کا حکم دیا ہے اور لاپتا افراد سے متعلق 17 اکتوبر تک پیشرفت رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے کہاکہ پولیس رپورٹ میں بتایاگیا کہ چاروں کو عذیر بلوچ گینگ نے قتل کردیا، اس پر لاپتا افراد کے اہلخانہ نے کہا کہ اگر ہمارے بچوں کو ماردیا گیا تو کوئی ثبوت دیا جائے۔
جسٹس نعمت اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پولیس افسران کاغذی کارروائی کے علاوہ کچھ نہیں کرتے، عدالت کو لاپتا افراد کی بازیابی سے سروکار ہے، اب زبانی جمع خرچ سے بات نہیں بنے گی۔
عدالت نے 2011 سے گمشدہ 5 سالہ بچی کے کیس کی تحقیقات ایڈیشنل آئی جی کے سپرد کردیں جب کہ عباسی شہید اسپتال سے لاپتا فیزورخان کی گمشدگی کی درخواست پرمیڈیکل افسر سے جواب طلب کرلیا۔