اسلام آباد: سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے ملزمان انور مجید، عبد الغنی اور حسین لوائی کو اسپتال سے جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اس کیس میں گرفتار انور مجید اور عبدالغنی کے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ میں مؤقف اختیار کیا کہ انور مجید، عبدالغنی مجید اور حسین لوائی تینوں کی رپورٹس آ چکی ہیں، میڈیکل بورڈ نے انور مجیدا ور عبدالغنی مجید کو جیل منتقل کرنے کی سفارش کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ یہ تاحیات بیمار نہیں ہیں، اللہ خیر کرے ایسی کوئی حالت نہیں کہ یہ بستر سے چپک گئے ہیں، انور مجید کی اوپن ہارٹ سرجری کروانی ہے تو کروائیں ہمیں اعتراض نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی تو انور مجید اوپن ہارٹ سرجری کروا ہی نہیں رہے،وہ تو ابھی اپنی سرجری کے لیے ڈاکٹروں کی ہدایات کا انتظار کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کسی کو اتنا عرصہ کارڈیالوجی سینٹر میں رکھا گیا ہو جتنا انور مجید کو رکھا گیا، اگر انور مجید کو کوئی مسئلہ ہوا تو ان کی ہارٹ سرجری کروا لی جائے گی۔
عبد الغنی مجید کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ عبد الغنی مجید کو ہومرائیڈ کی سرجری کروانی ہے، ان کا ہیموگلوبن بھی کم ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سرجری کروانے پر ہمارا اور آپ کا اختلاف نہیں ہے، سرجری بے شک کروائیں لیکن پہلے دونوں کو جیل بھیجیں، بشیر میمن صاحب جب سرجری کا وقت ہو تو ان کو اسپتال منتقل کر دینا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق انور مجید اور عبدالغنی مجید دونوں اسپتال میں نہیں رہ سکتے، حسین لوائی تو ویسے ہی فٹ ہیں انہیں کوئی مسئلہ نہیں رہا۔
عدالت نے تینوں ملزمان کو فوری جیل منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔
اس سے قبل آج ہی دورانِ سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہدایت کی تھی کہ خصوصی عدالت جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر کوئی حکم جاری نہ کرے۔
عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 184 کے تحت حکم جاری کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو اومنی گروپ کے اکاؤنٹس غیر منجمد کرنے سے بھی روک دیا۔
جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت میں جے آئی ٹی نے پہلی پیشرفت رپورٹ سیل شدہ لفافے میں سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔
جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ وقت کی کمی کے باعث مشکلات کا سامنا رہا، اب تک کی ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیا، مزید 33مشکوک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئے سامنے آنے والے اکاؤنٹس کی اسکروٹنی جاری ہے، اب تک کی تحقیقات میں 334ملوث افراد سامنے آئے ہیں، تمام افراد اکاؤنٹس میں ٹرانزیکشنر کرتے رہے، جعلی اکاؤنٹس کے ساتھ 210کمپنیوں کے روابط رہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا ابھی لانچز کا معلوم نہیں ہوا؟ ذرا لانچ کے ذریعے رقم منتقلی کا بھی پتہ کریں۔
جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے جواب دیا کہ ابھی لانچ تک نہیں پہنچے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے اعتماد کے ساتھ جے آئی ٹی کو ذمہ داری دی ہے، اکائونٹس کا مقصد یہی ہے کہ چوری اور حرام کے پیسے کو جائز بنایا جائے، ایک اہم کردار عارف خان بھی ہے۔
سربراہ جے آئی ٹی احسان صادق نے کہا کہ عارف خان بیرون ملک ہے، کس ملک میں ہے ابھی ظاہر نہیں کر سکتا، جو ملزمان باہر ہیں انہیں واپس لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے ریڈ وارنٹ کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، تحقیقات کیلئے نیب، ایف بی آر،ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک سے ریکارڈ لے رہے ہیں، جعلی اکاؤنٹس میں کنٹریکٹرز نے رقم جمع کرائی ہے
جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے استفسار کیا کہ کیا رقم کراس چیک کے ذریعے اکاؤنٹس میں جمع ہوئی؟
سربراہ جے آئی ٹی نے جواب دیا کہ جعلی اکاؤنٹس کے معاملے کا جائزہ لینا پڑے گا،کمپینوں میں 47کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اومنی گروپ کی کتنی شوگر ملز ہیں ،سربراہ جے آئی ٹی نے انہیں جواب دیا کہ اومنی گروپ کی 16 شوگر ملز ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اومنی گروپ کسی کا بے نامی دار تو نہیں؟ سربراہ جے ائی ٹی احسان صادق نے جواب دیا کہ جعلی بینک اکائونٹس میں رقم جمع کروانے والے ٹھیکیدار بھی تھے، سرکاری ٹھیکیداروں کے نام بھی رپورٹ کا حصہ بنا دیے ہیں،تمام ٹرانزیکشنز کا جائزہ لینا مشکل کام ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی کا خرچہ اومنی گروپ پر ڈالیں گے، پیسہ کوئی کھائے اور خرچہ سرکار کیوں کرے؟
احسان صادق نے کہا کہ کراچی میں عمارت نہیں تھی مگر ہم نے بندوبست کیا۔
انور مجید کے وکیل نے کہا کہ میرےگرفتار مؤکلان کس طرح سے تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکلان کس قسم کی حراست میں ہیں؟آپ کے مؤکلان اسپتال میں ہیں، جے آئی ٹی اپنی تحقیقات جاری رکھے، عدالت سے جے آئی ٹی کو جو معاونت چاہیے اس کے لیے درخواست دیں۔
انور مجید کے وکیل نے جواب دیا کہ عبدالغنی مجید نے جے آئی ٹی کے اخراجات دینے سے انکار کر دیا ہے،ہمارے تمام اکاؤنٹس منجمد ہیں، ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
عدالت نے اومنی گروپ کے اکاؤنٹس غیر منجمد کرنے سے روک دیا اور کہا کہ ٹرائل کورٹ اکائونٹس کھولنے کی درخواست پر فیصلہ نہ دے، معاملہ براہِ راست سپریم کورٹ دیکھ رہی ہے، سپریم کورٹ کے حکم کے بغیر کوئی حکم جاری نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی کی ڈائریکٹرڈاکٹر سیمی جمالی سے استفسار کیا کہ انور مجید کو اسپتال میں لٹایا ہوا ہے، گھماتے بھی ہیں؟
ڈاکٹر سیمی جمالی نے جواب دیا کہ میرا کام صرف اسپتال انتظامیہ کا ہے، آرمی میڈیکل بورڈ نے 9اور 10محرم کو انور مجید اور عبدالغنی مجید کا معائنہ کیا تھا۔
عدالت نے رجسٹرار آفس کو سرجن جنرل آفس سے رابطے کی ہدایت جبکہ وزرات دفاع کو میڈیکل بورڈ سے متعلق رپورٹ دینے کی ہدایت کی جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت 10روز کے لیے ملتوی کر دی گئی۔