سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران 10 سالہ بچی امل عمر کے جاں بحق ہونے کے معاملے کی سماعت کے دوران پولیس ٹریننگ اور قواعد میں ضروری ترامیم کے تعین کے لیے ایک کمیٹی قائم کردی۔
کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران اہلکار کی فائرنگ سے امل عمر کی موت پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جانے والی کمیٹی میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ، بیرسٹر اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ، ایڈووکیٹ عمائمہ اور دیگر شامل ہیں۔
کمیٹی پولیس ٹریننگ اور قواعد میں ضروری ترامیم کا تعین کرےگی اور پرائیویٹ اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج اور اس واقعے کے ذمہ داران کا تعین بھی کرے گی۔
سماعت کے دوران امل کے والدین عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت بچی کی والدہ بینش عمر کمرہ عدالت میں واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے روتی رہیں۔انہوںنے عدالتکو بتایا کہ13 اگست کی شب سگنل پر کھڑے ہوئے ڈاکوؤں نے انہیں لوٹا، تھوڑی دیر بعد عقبی اسکرین پر گوی لگی، پیچھے دیکھا توامل سیٹ پر لیٹی ہوئی تھی اوردوسری بچی گاڑی میں نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔ایک گولی ڈگی اور سیٹ سے نکل کر امل کے سر میں لگ چکی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم فوراً قریبی اسپتال گئے،ادھرایمبولینس تھی نہ وہ مصنوعی تنفس کا پمپ دینےپررضامندہوئے،میری بچی نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ د یا،دوسرے مقام سے آنے والی ایمبولینس کے آنے سے قبل ہی امل چل بسی۔
یہ تمام تفصیلات بتاتے ہوئے امل کی والدہ کی روتے ہوئے ہچکیاں بندھ گئیں، انہوں نے مزید کہا کہ ہم تاوان نہیں لینا چاہتے لیکن ہم چاہتے ہیں آئندہ کسی کے ساتھ ایسا نہ ہو،ہم کابل ، شام ، کشمیر ، لبنان یا فلسطین میں نہیں رہتے، ہم کراچی میں رہتے ہیں،کراچی سمیت ملک بھر میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پولیس پہلے تو ماننے پر تیار نہیں تھی کہ گولی کس کی لگی۔
انہوں نےعدالت میں کہا کہ اسٹریٹ کرائم میں اے کے47 گن پولیس کو استعمال کرنے کی اجازت کس نے دی؟اداروں میں انسانیت کب آئے گی؟
متاثرہ فیملی کے وکیل نےعدالت میں کہا کہ ایمرجنسی ایڈٹوانجرڈپرسنزکا قانون سندھ کےپرائیوٹ اسپتالوں پرلاگو نہیں،پولیس میں اسٹریٹ کرائم کے خلاف لڑنے کی خصوصی ٹریننگ ہی نہیں۔
سماعت کے بعد امل کے والدین نے میدیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان کا از خود نوٹس اور انکوائری کے حکم پر شکریہ ادا کیا۔