کراچی:وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ تھر میں بچوں کی ہلاکت تشویشناک ہے تاہم تھر میں اموات بھوک سے نہیں ہورہیں۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس سے قبل وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے میڈیا سے بات چیت کی وزیر اعظم کی بھینسوں کو فروخت کرنے کے سوال پر سعید غنی نے کہا کہ وزیر اعظم کو بھینیس عزیر نہیں بلکہ شیرو عزیز ہے وہ بھینسوں کو نہیں چاہتے کیونکہ وہ ان کے ساتھ ان کے گھر اور بیڈ روم تک نہیں جاتی جبکہ شیرو ان کے بیڈ روم تک جاتا ہے۔
انہوں نے کہا وفاقی حکومت کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ 18 ویں ترمیم کو ڈی رول کرنے کی بیوقوفی کرکے ایک نیا پنڈورا باکس نہ کھولے۔
انہوں نے کہا کہ پرانے پاکستان میں گیس، بجلی، پیٹرول اور کھاد مہنگا ہو تو غلط اور نئے پاکستان میں مہنگا ہو تو سب ٹھیک ہے۔ معلوم نہیں اسد عمر کے پاس کون سا فارمولہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ مہنگا کرکے مہنگائی کم ہونے کا دعویٰکررہے ہیں۔ عارف جتوئی قائد اعظم کی توہین پر ایوان میں معافی مانگیں بصورت دیگر ہم اسپیکر سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔
وزیر بلدیات نے کہا کہ تھر میں بچوں کی ہلاکت کا سبب غذائی کمی نہیں بلکہ وہاں دیگر ماحول ہیں اور تھر میں نقل مکانی پہلی بار نہیں بلکہ ریگستانوں میں جب بارشیں نہیں ہوتی تو وہاں نقل مکانی ہمیشہ ہوتی ہے۔ کراچی میں دستیاب پانی ضرورت کے مقابلے نصف ہے اور یہاں روزانہ 148 ملین گیلن پانی لیکیج اور چوری کی نظر ہوجاتا ہے، ان کے سدباب اور پانی کی فراہمی کو منصفانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع پر سندھ حکومت نے کام کا آغاز کردیا ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بلدیاتی نظام کے حوالے سے تاحال ہمیں کوئی معلوم نہیں لیکن تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخواہ جہاں ان کی حکومت ہے اور بلوچستان جہاں وہ حامی ہیں وہاں بے شک جو نظام لانا چاہیں لائیں لیکن سندھ میں سندھ حکومت کی مرضی کے برخلاف کوئی نظام مسلط نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت کے بنائے گئے بلدیاتی نظام کو ضرور دیکھیں گے اور اگر اس میں کوئی اچھائی نظر آئی تو ہم ضرور سندھ اسمبلی کے ذریعے بلدیاتی نظام میں ترمیم کریں گے لیکن ان کی مرضی کے مطابق کوئی نظام قابل قبول نہیں ہوگا اور نہ ہی وفاق کوئی نظام ہم پر مسلط کرسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم سمیت تحریک انصاف کے وزراء اور ارکان اسمبلی میں 90 فیصد کو بھی آئین اور قانون سے آشنائی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ جو بیان دیتے ہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کو ڈی رول کرنے کے بیانات دینے والے قانون اور آئین سے ناآشنائی کے باعث اس طرح کے بیان دے رہے ہیں۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ کے فور، 100 اور 65 ایم جی ڈی یومیہ پانی کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ 100 ایم جی ڈی منصوبہ آئندہ سال فروری یا مارچ میں مکمل جبکہ 65 ایم جی ڈی بھی اسی دوران مکمل ہوجائے گا البتہ 260 ایم جی ڈی کا کے فور منصوبہ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی عدم دستیابی پر تاخیر کا شکار ہے لیکن ہم نے متبادل کے طور پر ڈی سیلینیشن پر کام شروع کردیا ہے اور امید ہے کہ آئندہ سال تک پانی کی فراہمی میں ودرے بہتری آجائے گی۔
کراچی میں کے الیکٹرک کی جانب سے لوڈشیڈنگ اور اوور بلنگ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ آئین کی آرٹیکل کی مکمل خلاف ورزی کررہی ہے اور انہوں نے کراچی مینجمنٹ کے تحت 100 فیصد ریکوری کے علاقوں کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ جبکہ غریب اور متوسط علاقوں میں ساڑھے ساتھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع رکھی ہے جبکہ آئین کے تحت تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔