اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے دوبچیوں کے لاپتا ہونے کے کیس کی سماعت کے دوران آبدیدہ ہو کر ریمارکس دیئے کہ اسلامی ریاست میں بچیوں کا لاپتا ہونا ہمارے لیے سوالیہ نشان ہے، میں اللہ اور اس کے رسول کوکیا جواب دوں گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2016 سے دوبچیوں سامعہ اور ادیباکے لاپتا ہونے کےکیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کی۔میجر(ر)اعظم سلیمان اور ڈی جی ایف آئی اےبشیرمیمن عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی آبدیدہ ہو گئے، انہوں نےبچیوں کا کچھ پتا نہ چلنےپر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کوفوری اقدامات کی ہدایت کر دی۔
دوران سماعت جسٹس صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ ہم سب بچیوں والےہیں اللہ نہ کرے کسی بھی بچی کے ساتھ ایسا ہو۔
ڈی آئی جی آپریشن نے عدالت کو بتایا کہ ایک بندے کا پتا چلا ہے جلد پتا لگا لیں گے۔
اس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ایف آئی اے سے درخواست کی تھی آپ بھی کچھ نہیں کرسکے۔
ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ تھوڑا وقت دے دیں جلد ڈھونڈ لیں گے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ ریاستی ادارے ناکام ہیں،اگر کسی کا کتا گم جائے تو اس کو بھی برآمد کیا جاتا ہے،مجھے کوشش نہیں عملی کام چاہیے،میں کوئی مختصر آرڈر پاس نہیں کر رہا۔
عدالت نےاستفسار کیا کہ کہاجاتاہے کوئی زمین کی تہہ تک جائے تو ٹریس کیا جاتا ہے، پھر کہاں ہے وہ ادارہ؟اسلام آباد پولیس نے مجھے مایوس کی،ڈی جی ایف آئی اےبتائیں خدا نخواستہ آپ کی بچیاں لاپتاہوں تو رات کو سو پائیں گے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس کیس میں پیش رفت چاہیے، لولی پوپ نہیں۔
عدالت نےآئندہسماعت تک بچیاں بازیاب کرائی جانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 19 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔