اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھرملک میں الیکشن کرانے اور وزیراعظم منتخب کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران فواد چوہدری نے آئی جی اسلام آباد کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہے، بیورو کریسی سے متعلق کچھ مسائل ہیں جن کو حل کررہے ہیں، قومی اسمبلی کاکام قانون سازی ہے اور بیوروکریسی کا کام عملدرآمد ہے، بیوروکریسی کام نہیں کرے گی تو وزیراعظم اور چیف منسٹرز ان کی تبدیلی کا حق رکھتے ہیں اوراگر صرف بیوروکریٹس کے ذریعے ہی حکومت چلانی ہے تو پھر الیکشن نہ کراتے، اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھر وزیراعظم منتخب کرنے اور الیکشن کرانے کا کیا فائدہ، بیورو کریٹس کے ذریعے ہی حکومت چلالیتے۔
وزیر اطلاعات نے کہاکہ آئی جی کے تبادلے کی وجہ ان کے خلاف مختلف شکایات تھیں، آئی جی اسلام آباد کا تعاون ٹھیک نہیں تھا، اسلام آباد میں ڈرگ اور اسکولوں میں منشیات فروخت کی جارہی ہے، پولیس نے ڈرگ مافیا کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔
انہوں نے کہاکہ اگر سرکاری افسر حکومت یا اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے فون نہیں اٹھائے گا تو سیاسی نگرانی کیسے ہوگی، پھر جمہوریت نہیں بلکہ اشرافیہ کی حکومت ہوگی، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو آئی جی جوابدہ ہوتا ہے، بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ سرکاری افسر فون نہ اٹھائے تو ہیرو بن جائے گا، لیکن اس سے ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔
وزیر اطلاعات نے بتایا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے پہلے بھی وزیراعظم سے شکایت کی تھی کہ اسلام آباد پولیس تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کے خلاف کارروائی نہیں کررہی اور آئی جی اسلام آباد اس سلسلے میں نہ تعاون کررہے ہیں اور نہ ہی فون اٹھاتے ہیں، شہریار آفریدی نے وزیراعظم سے یہ بھی شکایت کی تھی کہ اسلام آباد پولیس کے تھانوں اور ناکوں پر رشوت وصول کی جاتی ہے، جسے ختم کرنے کےلیے بھی آئی جی تعاون نہیں کررہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ اپنے اختیارات استعمال کریں گے، سپریم کورٹ قابل احترام ادارہ ہے جہاں حکومت اپنا موقف پیش کرے گی، یہ ممکن نہیں کہ وزرا اور وزیراعظم کو آئی جی ، ڈی سی اور ایس پی گھاس نہ ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی سیاست اتنی ہی رہ گئی ہے کہ وہ دوسروں کو ملنے پارلیمنٹ آئیں، اے پی سی کی تک سمجھ نہیں آتی، یہ این آر او لینے کے لیے ہورہی ہے لیکن کچھ بھی ہوجائے این آر او نہیں ملے گا، ہم کہہ رہے ہیں نارو وہ کہہ رہے ہیں این آر او۔
ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنایا تو اجلاس کیا جیل میں بلائیں گے؟ اپوزیشن کے پاس نیک پاک لوگ تو ہیں نہیں، جس پر ہاتھ رکھیں اس پر نیب کے چھ کیس نکل آتے ہیں۔