اسلام آباد : سپریم کورٹ میں این آر او کیس کی سماعت کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ جب تک کیس کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ نہیں ہوجاتا تب تک سابق صدور پرویز مشرف، آصف زرداری اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے اثاثوں کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جائیں گی اور انہیں سربمہر رکھا جائے گا۔
سپریم کورٹ میں این آر او کیس کی سماعت کے موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ہمیں مطمئن کریں کہ درخواست قابل سماعت ہے، جس پر درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ سوئس اکاؤنٹ میں پڑی رقم پاکستان کی تھی، آصف علی زرداری نے پاکستان کا پیسہ سوئس بینکوں میں رکھا، سوئس اکاؤنٹ میں موجود 60 ملین ڈالر پاکستان کی عوام کو ملنے چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سوئس بنکوں میں پڑا پیسہ پاکستان کا ہے اس کے کیا شواہد ہیں، سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس کی شناخت کیا ہے، وکیل آصف زرداری کہتے ہیں وہ تمام کیسز سے بری ہوچکے، یہ تو واضح ہے کہ سوئس اکاؤنٹس میں 60 ملین ڈالر تھے لیکن دیکھنا ہے کہ 60 ملین ڈالر کس کے تھے، کہاں گئے اور بینیفشری کون تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ این آر او کا معاملہ ماضی کا حصہ بن چکا، آئینی درخواست میں دوبارہ ٹرائل کرنا مناسب نہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نیب اور وفاقی حکومت کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جواب مسترد کردیا، عدالت نے اٹارنی جنرل اور نیب کو سوئس مقدمات اور این آر او کا جائزہ لے کر جواب داخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جواب اور دستاویزات آنے کے بعد درخواست قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کریں گے۔
عدالت نے پرویز مشرف،آصف زرداری اور ملک قیوم کے اثاثوں کی تفصیل خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں درخواست قابل سماعت ہونے کے فیصلے تک تفصیلات سر بمہر رکھی جائیں گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ یقین رکھیں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی، فیصلہ آئین اور قانون کے تحت ہوگا۔ عدالت نے کیس کی سماعت 3 ہفتوں تک کے لیے ملتوی کردی۔