اسلام آباد: مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین اور تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے صدر مفتی منیب الرحمان نےتحریک لبیک پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقتدر قوتوں نے جس طرح 2014 کے دھرنے اور احتجاج میں تحریک انصاف سے درگزر کیا تھا اسی طرح تحریک لبیک کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا جائے۔
اسلام آباد میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین اور تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے صدر مفتی منیب الرحمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اہلسنت والجماعت ریاست دشمن کارروائیوں میں کبھی ملوث نہیں رہی اور تمام آپریشنز کی غیر مشروط حمایت کی ہے، لیکن حکومت نے بلاجواز ہمارے علماء اور طلباء کے خلاف کارروائیاں شروع کی ہیں، ہمارے مدارس کے اساتذہ و طلبا کو احتجاج پر مجبور نہ کیا جائے، بلکہ ہماری پرامن آواز کو سن کر جائز شکایات کا ازالہ کیا جائے، تحریک لبیک کے جاں بحق کارکنوں کو 10 دس لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے۔
مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہو تو ہماری پولیس تمام حدیں پار کر دیتی ہے، احتجاج کے حوالے سے بے اعتدالی تحریک انصاف سے بھی ہوتی رہی ہے، تحریک انصاف کے احتجاج کو درگزر کیا جا سکتا ہے تو تحریک لبیک کی قیادت کو بھی اسی سلوک کا حقدر ٹہرایا جائے، موجودہ حکمرانوں پر بھی مقدمات درج تھے جو شخصی ضمانت پر ختم کیے گئے، غداری کے مقدمات ان لوگوں پر بھی قائم ہیں جو دبئی کے محلات میں رہتے ہیں، قانون بنایا جائے کہ دھرنوں میں نقصانات پریکساں سلوک برتا جائے۔
مفتی منیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کی دل آزاری پر ہمیں افسوس ہے، ان سے گزارش ہے کہ درگزر سے کام لیں، تحفظ ناموس رسالت ﷺ تمام دینی طبقات کا مشترکہ موقف ہے، آسیہ مسیح کی نظرثانی پٹیشن کے لیے فل کورٹ بینچ بنایا جائے جس میں علامہ خادم رضوی اور ڈاکٹر آصف اشرف کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے، چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ ناموس رسالت ﷺ کی سنگینی کا ادراک کیا جائے۔
مفتی منیب الرحمان نے مزید کہا کہ تحریک لبیک کو نشان عبرت بنانے سے گریز کیا جائے، حکومت کو وقتی کامیابی مل جائے گی لیکن چنگاری سلگتی رہے گی، طاقت کے زور پر دنیا کی سپر پاور بھی دہشتگردی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی، مذہبی مسلئے پر جذبات کو ابھارنا نہیں چاہتے بلکہ پرامن راستہ نکالنا چاہتا ہے، وزیراعظم سے کہا تھا مذہبی معاملات پر وزیرمذہبی امور سے ہی اظہار خیال کرائیں اور سیاسی ریسلنگ کے لئے بے شک فواد چوہدری کو چھوڑ دیا جائے۔