توہین رسالت کے مقدمے میں آسیہ نورین کی سپریم کورٹ سے بریت کے فیصلے کے خلاف اتوار کو مظفر گڑھ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے تحت احتجاجی مارچ اور مظاہرہ کیا گیا جس میں شرکت کے لے ہزاروں افراد نکل آئے۔ ملک کے مختلف علاقوں سے قافلے جھنگ موڑ مظفر گڑھ پہنچے جہاں مولانا فضل الرحمان، مولانا غفور حیدری، علامہ راشد خالد محمود سومرو اور دیگر قائدین نے ان سے خطاب کیا۔
مارچ کے شرکا کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جھنگ موڑ اور اس کے اردگرد کی سڑکیں بھر گئیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ مارچ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کی حکومت پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ مدینہ کے نام پر دھوکہ دینا چاہتے ہو یہ دھوکے نہیں چلیں گے۔ لوگوں کو دھوکے مت دیں اپنے چہرے دیکھیں یہ مدینہ کی ریاست بنانے والے نہیں ایسی شکلوں سے مدینہ کو شرم آجاتی ہے۔
تحفظ ناموس رسالت مارچ کے لیے انتظامات ہفتہ سے ہی کر لیے گئے تھے اور اتوار کی صبح سے ہی قافلوں کی آمد شروع ہوگئی۔
اتوار کو مولانا فضل الرحمان اور دیگر قائدین کے خطاب سے کچھ پہلے اجتماع سے ایک مشکوک خاتون کو گرفتار کرلیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
آسیہ کی بریت کے خلاف ہونے والے دیگر احتجاجی مظاہروں کی طرح مظفر گڑھ مارچ کی کوریج سے بھی بیشتر نجی ٹی وی چینلز نے گریز کیا۔
اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ
حکومت نے مغرب کے دباؤ میں آکر آسیہ بی بی کو بری کیا اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بین الاقوامی دباؤ میں کیا گیا جس کو ہم تسلیم نہیں کرتے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے بڑے بڑے بوجھ سر پر اٹھائے ہوئے ہیں وہ ڈیم بھی بنا کر دے رہے ہیں اور آبادی بھی کنٹرول کر رہے ہیں، کیا چیف جسٹس نے اتنا عوامی بننے کے بعد آسیہ بی بی کے گاؤں میں جا کر بھی کیس کی تفتیش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ختم نبوت قانون کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کو چیلنج کیا تو حکومت علما کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ جن مولویوں کے پیچھے آپ پناہ لے رہے ہیں ان کی پشت پر بھی ہم لوگ ٹھہرے ہیں۔
اسلامیات کا مضمون پڑھانے کیلئے اقلیتی اساتذہ کا کوٹہ مقرر کرنے کے فیصلے پر بھی مولانا فضل الرحمان نے تنقید کی۔ انہوں نے کہاکہ نئے نعروں اور نئے رنگ سے ریاست مدینہ کے نام پر قوم کو دھوکہ دیا جا رہا ہے، اگر اسلامیات کا مضمون کسی غیر مسلم نے پڑھانے کی کوشش کی تو اسے کمرہ جماعت سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا۔