رپورٹ: اختر صدیقی
مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 برس قید کی سزا سنا دی گئی اور پیر کے روز انہیں عدالت سے گرفتار کرنے کے بعد اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ منگل کو انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا جائے گا۔ احتساب عدالت نے نیب کے دوسرے مقدمے فلیگ شپ ریفرنس میں میاں نواز شریف کو بری کردیا ہے۔
العزیزیہ ریفرنس میں عدالت نے انہیں ڈیرھ ارب روپےجرمانے کی سزا بھی سنائی۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے دونوں نیب ریفرنسز کا فیصلہ تین بجے سے کچھ پہلے سنایا۔
نواز شریف کو گرفتاری کے بعد ایک بکتر بند گاڑی میں اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پولیس بکتر بند گاڑی کو صبح ہی عدالت کے اندر لے آئی تھی۔ تاہم میاں نواز شریف نے عدالت میں درخواست دی کہ انہیں اڈیالہ جیل کے بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں بھیجا جائے۔ عدالت نے اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست منظور کرلی اور میاں نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ تاہم حکام انہیں اڈیالہ جیل ہی لے جا رہے تھے جب پر میاں نواز شریف کو نیب افسران میں مکالمہ ہوا۔ جج سے دوبارہ رابطہ کیا گیا اور طے پایا کہ نواز شریف پیر کی شب اڈیالہ جیل میں گزاریں گے جبکہ منگل کو انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا جائے گا۔
اڈیالہ جیل میں میاں نواز شریف کو رکھنے کیلئے صفائی ایک روز قبل ہی کر لی گئی تھی۔ عدالت سے انہیں اڈیالہ پہنچا دیا گیا۔
قبل ازیں میاں نواز شریف فیصلہ سننے کے لیے قافلے کی صورت میں عدالت پہنچے۔ ان کے قافلے میں 25 کے لگ بھگ گاڑیاں شامل تھیں۔ نواز شریف کی گاڑیاں حمزہ شہباز شریف چلا رہے تھے۔ عدالت کے باہر کارکنوں نے میاں نوازشریف کا استقبال کیا۔
پیر کو فیصلہ صبح 10 بجے کے لگ بھگ سنائے جانے کی توقع تھی تاہم بعد ازاں بتایا گیا کہ فیصلہ 2 بجے آئے گا۔ لیکن دو بجنے تک نواز شریف عدالت نہیں پہنچے۔ اس کے بعد کہا گیا کہ فیصلہ تین بجے سنایا جائے گا تاہم تین بجے سے کچھ پہلے فیصلہ سنا دیا گیا۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما مشاہد اللہ خان نے فیصلے کو جمہوریت کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
انتظامیہ نے احتساب عدالت سمیت شہر بھر میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے خصوصی سکیورٹی پلان تشکیل دے رکھا تھا۔ کسی بھی اہم عوامی مقام یا شاہراہ پر ن لیگی کارکنوں کے احتجاج کو ہر قیمت پر روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو پکڑنے کے لئے سادہ کپڑوں میں پولیس اہلکار تعینات رہے۔ آنسو گیس کے 400 اضافی شیل، ربڑ کی گولیاں اور ڈنڈ ا بردار 12 اسپیشل اسکواڈز بھی تشکیل دیے گئے۔ قیدیوں کی 8 وینز سٹی زون کے اہم مقامات پر موجود رہیں۔ چاروں زونل ایس پیز اپنے علاقوں میں صورتحال کی مانٹیرنگ کرتے رہے۔