برطانوی دارالامرا کے پاکستانی نژاد رکن لارڈ نذیر احمد کو ایف آئی اے نے صرف 72 گھنٹے کیلئے پاکستان میں رہنے کی اجازت دی ہے جس کے بعد انہیں واپس جانا ہوگا۔ لارڈ نذیر احمد نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر احتجاج کیا ہے۔ جبکہ لندن میں پاکستانی برداری کا کہنا ہے کہ لارڈ نذیر کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت نے انتقامی کارروائی کی ہے کیونکہ انہوں نے صدر عارف علوی کو سخت زبان میں ایک خط لکھا تھا۔
لارڈ نذیر احمد منگل 25 دسمبر 2018 کو پاکستان پہنچے جہاں ایف آئی اے نے انہیں صرف 72 گھنٹے کے لیے پاکستان میں داخلے کا ایک پرمٹ دیا۔ یہ پرمٹ ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جن کا نیکوپ یا پی او سی زائدالمعیاد ہو جائے یا گم ہو جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لارڈ نذیر احمد کا نیکوپ زائد المعیاد تھا اور انہیں خصوصی پرمٹ جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس دوران اپنے نیکوپ کی تجدید کرا سکیں۔
تاہم لارڈ نذیر نے ایک پاکستانی نجی ٹی وی کو بتایا کہ انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ پر کئی گھنٹے تک انتظار کرایا گیا اور پھر صرف 72 گھنٹے کیلئے داخلے کی اجازت دی گئی جبکہ حکومت پاکستان کے ایک نوٹی فکیشن کے تحت زائد المعیاد اوورسیز کارڈ(نیکوپ) پر بھی پاکستان میں داخلہ دیا جا سکتاہے۔
لندن سے نمائندہ امت توصیف ممتاز کے مطابق یہاں پاکستانی کمیونٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لارڈ نذیر احمد کے ساتھ یہ سلوک ان کی جانب سے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صدر عارف علوی کو لکھے گئے ایک خط کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ خط انہوں نے صدر پاکستان کو بھیجا نہیں تھا لیکن 19 دسمبر کو تحریر کردہ یہ خط سوشل میڈیا پر لیک ہوگیا تھا۔ اس خط میں لارڈ نذیر احمد نے دہری شہریت کے حامل افراد کو سیکورٹی رسک قرار دیئے جانے پر احتجاج کیا تھا۔ لارڈ نذیر نے کہا تھا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بعض سرکاری افسران نے کرپشن چھپانے کیلئے دہری شہریت حاصل کی ہوگی لیکن بیرون ملک مقیم تمام پاکستانیوں کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔
تاہم سپریم کورٹ کا مکمل حکم نامہ پڑھنے کے بعد لارڈ نذیر اس خط سے دستبردار ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنی پریس کانفرنس بھی ملتوی کر دی تھی۔ ایک بیان میں انہوں نے واضح کردیا تھا کہ انہوں ںے خط پوسٹ نہیں کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وضاحت کے باوجود ایئرپورٹ پر اپنے ساتھ روا رکھے گئے رویے پر لارڈ نذیر حیران ہیں۔