وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت امن و امان کی صورتحال پر ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری، مرتضیٰ وہاب، ڈی جی رینجرز سندھ، آئی جی سندھ اور ہوم سیکرٹری سمیت دیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 4 ہفتے میں 6 واقعات ہوئے، قائد آباد کا واقعہ، چینی قونصل خانے پر حملہ، ایم کیو ایم کی محفل میلاد پر حملہ اور بعد ازاں پاک سرزمین پارٹی کے 2 کارکن قتل ہوئے اور اب یہ علی رضا عابدی کا واقعہ پیش آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال تشویشناک ہے، دہشت گرد اکٹھے ہو رہے ہیں اور ہم چپ کر کے بیٹھے ہیں۔ یہ کیوں کنٹرول نہیں ہو رہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ضلع جنوبی میں زیادہ واقعات ہوئے ہیں، مجھے شدید افسوس ہے پولیس کیا کر رہی ہے؟ ’امن و امان قائم کرنے والے اداروں کو مکمل خود مختاری دی، نتائج اتنے اچھے نہیں مل رہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ہر صورت شہریوں کا تحفظ چاہیئے، شہریوں کو خوف میں مبتلا نہیں ہونے دوں گا۔
اجلاس میں ڈی آئی جی ساؤتھ نے علی رضا عابدی کے قتل پر بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں جائے وقوع سے 5 خول ملے۔ علی رضا عابدی کے والد کا انٹرویو کیا۔ علی رضا عابدی کا فون تحویل میں لے لیا گیا جبکہ گولیوں کے خول لیب بھیجے گئے ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں کافی واضح شہادتیں موجود ہیں جن سے قاتل گرفتار ہو جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’ہوجائیں گے نہیں مجھے قاتل گرفتار چاہیئیں‘۔
ڈی آئی جی ساؤتھ نے مزید بتایا کہ قتل میں جو طریقہ کار اپنایا اس سے واضح شہادتیں مل رہی ہیں، قائد آباد سے قتل کے واقعے تک واقعات کی سیریز نظر آرہی ہے۔ کچھ اہم گرفتاریاں ہوئی ہیں، تفتیش کر کے کافی کچھ واضح ہوگا۔
آئی جی سندھ کلیم امام نے اجلاس کو بتایا کہ کراچی پولیس نے کل 3 بڑے گینگ گرفتار کیے، شہر میں پیٹرولنگ بڑھا رہے ہیں۔ علی رضا عابدی کا موبائل فون ڈی کوڈ کروا رہے ہیں۔