متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما علی رضا عابدی کے قتل کی تحقیقات کیلئے 7 رکنی پولیس ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ دوسری جانب اس قتل کے حوالے سے الزامات کا طوفان کھڑا ہو چکا ہے۔
قتل کی تحقیقات کیلئے 7 رکنی ٹیم ڈی آئی جی سائوتھ کراچی جاوید اوڈھو نے قائم کی ہے جس کی سربراہی ایس ایس پی ساؤتھ پیر محمد شاہ کریں گے۔ ٹیم میں ایس پی طارق دھاریجو دوسرے سینئر ترین افسر ہیں۔
چینی قونصلیٹ حملے کے حوالے سے شہرت پانے والی قائم مقام ایس پی کلفٹن سوہائے عزیز کو بھی تفتیشی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ ڈی ایس پی مختیار احمد خاصخیلی، ڈی ایس پی راجہ اظہر محمود، انسپکٹر اسد اللہ منگی اور انسپکٹر چوہدری امانت کو بھی ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔
یہ ٹیم تحقیقات کے دوران سائوتھ زون پولیس کے کسی بھی اہلکار کی مدد حاصل کر سکے گی۔ جبکہ یہ اپنی رپورٹ یومیہ بنیادوں پر جمع کرائے گی۔
اب تک کی تحقیقات
پولیس کو قتل کے سلسلے میں اب تک یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
- قتل کی وردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج جس میں موٹرسائیکل سوار دو حملہ آور دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک علی رضا عابدی کو گھرکے باہر اس وقت گولیاں مار دیتا ہے جب وہ اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں۔
- ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج جس میں ٹارگٹ کلرز علی رضا عابدی کی گاڑی کا پیچھا کر رہے ہیں۔
- فرانزک جانچ جس سے معلوم ہوا کہ قتل میں استعمال ہونے والے پستول سے اس سے قبل 10دسمبر کو احتشام نامی نوجوان کا قتل ہوا تھا۔ اس بنا پر یہ نتیجہ اخذا کیا جا رہا ہے کہ واردات کے لیے اجرتی قتل استعمال کیے گئے۔
- کئی سیاسی رہنمائوں اور صحافیوں کے مطابق علی رضا عابدی نے دھمکیاں ملنے کے بار میں بات کی تھی۔ صحافی اویس توحید کے مطابق علی رضا عابدی نے انہیں بتایا تھا کہ وہ ملک چھوڑنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
الزامات کا طوفان
دوسری جانب علی رضا عابدی کے قتل پر الزامات کی ایک جنگ شروع ہوگئی ہے جس میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی ملوث ہو گئے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک خبر میں متحدہ قومی موومنٹ (لندن) کے ان الزامات کو اہمیت دی ہے جن میں قتل کے لیے پاکستانی ’اسٹیبلشمنٹ‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
دوسری جانب بڑی تعداد میں لوگ متحدہ لندن کے سربراہ الطاف حسین کے 23 دسمبر کے بیان کا ذکر کر رہے ہیں جس میں الطاف حسین نے ’لوگوں کو قتل پر اکسایا‘۔
موم بتی مافیا، لفالے اور دیسی لبرلز علی رضا عابدی کے قتل کا الزام دبے دبے لفظوں میں اسٹیبلشمنٹ پر لگا رہے ہیں
منافقت کی انتہا یہ ہے کہ یہ لوگ 23 دسمبر کی اس تقریر پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں جس میں الطاف حسین اپنے کارکنوں کو قتل پر اکسا رہا ہے.. جس کے بعد عابدی سمیت تین قتل ہو
— MUHAMMAD WAQAS (@thefighterW) December 27, 2018
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے لندن سے کی گئی اشتعال انگیز تقاریر ہونے کا معاملہ سندھ حکومت نے بھی اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں برطانیہ سے سفارتی رابطوں کا فیصلہ کیا ہے۔
علی رضا عابدی کا قتل فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نتیجہ ہونے کا بھی شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مقتول کا تعلق اہل تشیع سے تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرنے کے حوالے سے علی رضا عابدی کی کوششوں پر بھی متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ عابدی کے قتل کے بعد فاروق ستار، وسیم اختر اور دیگر رہنمائوں نے بتایا تھا کہ مقتول ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو متحد کرنے کیلئے سرگرم تھے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے سعید غنی کا کہنا تھا کہ علی رضا عابدی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے تھے اور انہوں نے آصف زرداری سے ملاقات بھی کی تھی۔
علی رضا عابدی کے والد اخلاق عابدی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کے بیٹے کا پیپلز پارٹی میں شمولیت کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ وہ نظریات کی پیروی کرنا چاہتے تھے۔
خود علی رضا عابدی نے ستمبرمیں ایم کیو ایم کی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب ضمنی انتخابات کے ٹکٹ کیلئے پارٹی نے انہیں نظرانداز کیا۔