ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کے ایک گائوں میں تین سالہ بچی سے زیادتی اور اس کے قتل کے ملزم کو پکڑنے کیلئے پولیس نے کم ازکم 30 افراد کے ڈین این اے نمونے لے لیے ہیں۔ تاہم تحقیقات میں کئی دن لگنے کا خدشہ ہے۔
تین سالہ فریال کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف جمعرات کو حویلیاں میں سینکڑوں افراد نے مظاہرہ کیا۔
حویلیاں کے گائوں کریلہ میں حق نواز گوہر کی بیٹی 25 دسمبر کو دن کے وقت لاپتہ ہوگئی تھی۔ جسے تلاش کیا گیا تاہم اس اگلے روز اس کی لاش ملی۔ پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ فریال کو زیادتی کا نشانہ بنا کر سردی میں کھلے آسمان تلے پھینک دیا گیا جس کے نتیجے میں وہ دم توڑ گئی۔
فریال کے والد حق نواز اس سانحے کے بعد گم سم ہیں۔ جمعرات کو ان کے گھر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا تاہم حق نواز بات کرنے کے قابل نہیں تھے۔ نمائندہ امت سے مختصر گفتگو میں انہوں نے کہاکہ وہ اب تک پوری طرح سمجھ نہیں پائے کہ کیا معاملہ ہوا ہے۔ حق نواز نے کہا ’’میری بیٹی ننھی پری تھی۔‘‘ اور مزید گفتگو سے معذرت کرلی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پورے ضلع ایبٹ آباد کی پولیس اس وقت صرف اس کیس کی تفتیش کررہی ہے۔ اب تک پولیس نے چھوٹے سے علاقے سے تیس کے قریب افراد کو اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے اور ان کے ڈی این اے کے نمونے لاہور فارنسنگ لیبارٹری میں بھجوا دیئے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ اس کیس میں بھی پولیس کو صرف ڈی این اے ٹیسٹوں پر ہی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ جبکہ ڈی این اے ٹیسٹوں کے نتائج میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ پولیس ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ڈی این اے ٹیسٹوں کے نتائج میں تاخیر ہوئی اور ملزم جلد گرفتار نہ ہوا تو تو پھر ممکنہ طور پر احتجاج جنم لے سکتا ہے۔
جمعرات کو بھی حویلیاں شہر میں سینکڑوں افراد نے سڑک پر نکل کر فریال کے ساتھ زیادتی اور قتل کے خلاف مظاہرہ کیا۔ فی الوقت مظاہرین نے پولیس کی تفتیش پر اعتماد کا اظہار کیا۔
مظاہرین نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ معصوم فریال کے ساتھ جنسی زیادتی کی جلد تحقیقات کر کے سفاکانہ جرم میں شریک مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے۔
ڈی ایس پی حویلیاں اعجازخان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں پولیس بالکل ٹھیک خطوط پر تفتیش کررہی ہے اور ملزمان بہت جلد گرفتار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں 25دسمبر کو بچی کی گمشدگی کی اطلاع ملی تھی اور ایک پولیس پارٹی فورا موقع پر روانہ کردی گئی تھی تاہم بدقسمتی سے بچی کی میت دستیاب ہوئی ہے۔
اعجاز خان نے 30 افراد کے خون کے نمونے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لاہور بھیجنے کی تصدیق کی۔