کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں لگنے والی آگ پر جرمن کمپنی کے خلاف جرمنی میں دائر مقدمہ متاثرین ہار گئے ہیں۔
2012 میں بلدیہ فیکٹری میں آگ لگنے سے 258 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ فیکٹری میں جرمن کمپنی KiK کے لیے کپڑے تیار ہوتے تھے۔ بچنے والے ایک شخص اور مرنے والوں میں سے 3 کے لواحقین نے ہرجانہ ناکافی قرار دیتے ہوئے جرمن عدالت سے استدعا کی تھی کہ ہر متاثرہ شخص کے لواحقین کو 30 ہزار یورو دلائے جائیں۔
جرمن شہر ڈورٹمنڈ کی عدالت میں ان افراد کا مؤقف تھا کہ اگرچہ جرمن کمپنی نے آگ نہیں لگائی تھی تاہم فیکٹری میں حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری اس پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ اس کی مصنوعات وہاں تیار ہو رہی تھیں۔
بلدیہ میں جلنے والی فیکٹری علی انٹرپرائز کی ملکیت تھی اور تفتیش کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ بھتے کے معاملے پر متحدہ کے دہشت گردوں نے یہاں آگ لگائی تھی۔
جرمن عدالت کے جمعرات کو ان کی درخواستیں مسترد کردیں۔ عدالت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اس معاملے پر عدالت نے ایک ماہر کو مقرر کیا تھا جس نے رپورٹ دی کہ مقدمہ مقررہ 2سالہ مدت کے اندر اندر دائر نہیں کیا گیا۔ جج نے ماہر کی اس رائے سے اتفاق کیا۔
عدالتی حکم پر مقرر کردہ ماہر کا کہنا تھا کہ ہنگامی راستے نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
جرمن کمپنی KiK فیکٹری میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کیلئے 60 لاکھ ڈالر ادا کیے تھے۔ تاہم فیکٹری میں جان لیوا آگ کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
فیصلے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے بلدیہ فیکٹری میں جاں بحق ایک نوجوان کی والدہ سعیدہ خاتون نے کہا کہ KiK نے آگ کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن کم از کم ایک جرمن عدالت نے اس معاملے کی جانچ تو کی۔