تحریک لبیک قیدیوں کے حق میں درخواست پر پنجاب حکومت نے اعتراض اٹھا دیا۔
تحریک لبیک کے خلاف حکومتی اقدامات کے خلاف پٹیشن کی لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں سماعت ہوئی۔
جسٹس مرزا وقاص رؤف نے چیئرمین ڈیفنس آف پاکستان حافظ احتشام احمد کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت کی۔
درخواستگزارحافظ احتشام احمدنے ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل اور پنجاب حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
چیئرمین ڈیفنس آف پاکستان نے سماعت کے آغاز پر چوہدری ناصر منہاس ایڈووکیٹ کا وکالت نامہ واپس لے لیا۔
8 جنوری کو کیس کی پیروی کے لئے چوہدری منہاس ایڈووکیٹ کا وکالت نامہ جمع کروایا تھا،اسی شام تحریک لبیک کی مرکزی قائم مقام قیادت کی جانب سے چوہدری ناصر منہاس ایڈووکیٹ سے لاہور میں موجودگی کی درخواست کی گئی۔
حافظ احتشام احمد نےعدالت میں موقف اختیار کیا کہ چوہدری ناصر منہاس لاہور میں تحریک لبیک کے قائدین و کارکنان کے خلاف مقدمات دیکھ رہے ہیں،ان کی راولپنڈی آمد مشکل ہے،اس لئے میں ان کا وکالت نامہ واپس لیکر خود کیس کی پیروی کروں گا۔
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی جانب سے پٹیشن کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا گیا۔
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اعتراض کیا کہ پٹیشنر کا تحریک لبیک پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ، ،پٹیشنر تحریک لبیک پاکستان کا رکن نہیں ہے،پٹیشنر کا یہ استحقاق نہیں کہ وہ پٹیشن دائر کرے۔
جسٹس مرزا وقاص نے پٹیشنر سے کہا کہ بہتر ہے کہ آپ اس کیس میں کوئی دوسرا وکیل کر لیں۔
پٹیشنر حافظ احتشام احمد نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے،میں اس کیس میں سینیئر وکیل کی خدمات حاصل کر لیتا ہوں، مگر آج میری عدالت سے استدعا ہے کہ زیر حراست افراد کو آئینی،قانونی اور بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے خلاف میری متفرق درخواست پر حکم نامہ جاری کیا جائے، میری عدالت سے استدعا ہے کہ زیر حراست افراد پر جیلوں میں تشدد کے خلاف دائر متفرق درخواست پر بھی حکم نامہ جاری کیا جائے،مذکورہ دونوں درخواستوں پر عدالت فریقین کو نوٹسسز جاری کر چکی ہے۔
متفرق درخواستوں پر حکم نامہ جاری کرنے کی پٹیشنر کی استدعا پر بھی اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا اعتراض اٹھایا۔
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نےاعتراض کیا کہ اس کیس میں پٹیشنر متاثرہ فریق نہیں ہے،،،تحریک لبیک پاکستان ایک سیاسی جماعت ہے ،زیر حراست افراد کے ورثا کی جانب سے ایسی کوئی درخواست یا شکایت نہیں آئی، ، ،بطور جماعت تحریک لبیک پاکستان نے بھی ایسی کوئی درخواست یا شکایت نہیں کی، ،زیر حراست افراد کے ورثا یا تحریک لبیک پاکستان کا کوئی رکن ایسی درخواست یا پٹیشن دائر کر سکتا ہے۔
جسٹس مرزا وقاص رؤوف نےریمارکس دیے کہ سوال تو موجود ہے کہ زیر حراست متاثرہ فریق کے ورثا اس حوالے سے کیوں عدالت نہیں آئے،سوال یہ بھی موجود ہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے ان اقدامات کو کیوں چیلنج نہیں کیا۔
حافظ احتشام احمد نے جواب دیا کہ ان تمام سوالات کے جوابات عدالت کو دینے کے لئے تیار ہوں۔میری پھر استدعا ہے کہ عدالت آج میری متفرق درخواستوں پر کوئی مناسب حکم نامہ جاری کرے،،زیر حراست فراد کے ورثا کافی پریشان ہیں۔
عدالت نے پٹیشنر کی جانب سے متفرق درخواستوں پر فوری طور پر کوئی حکم نامہ جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
جسٹس مرزا وقاص رؤوف نے ریماکس دیے کہ ہم آپ کی پریشانی آئندہ سماعت پر ختم کر دیں گے،آج وقت کم ہے،اگلے ہفتے کی کوئی تاریخ سماعت کے لئے رکھ دیتے ہیں۔آئندہ سماعت پر ہم تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے۔
یاد رہے کہ متفرق درخواستوں پر آٹھ جنوری کو لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس صداقت علی خان نے وفاقی سیکریٹری داخلہ،چیف سیکریٹری پنجاب،آئی جی پولیس اسلام آباد اور آئی جی پولیس پنجاب کو 11جنوری کے لئے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
چیئرمین ڈیفنس آف پاکستان حافظ احتشام احمد اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستیں پانچ جنوری کو دائر کی گئی تھیں جس کے بعد 8 جنوری کو سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار نے جسٹس راجہ شاہد محمود عباسی پر اعتراض کیا۔ فاضل جج خود کو سماعت سے الگ کرتے ہوئے مقدمہ دوسرے بینچ کو بھیج دیا تھا تھا جس نے اسی روز سماعت کی تھی۔
حافظ احتشام احمد کی دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 23 نومبر سے حراست میں لئے گئے تحریک لبیک کے قائدین و کارکنان کو جیلوں میں آئینی،قانونی اور بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، زیر حراست افراد پر جیلوں میں انسانیت سوز تشدد کیا جارہا ہے، نوے سالہ بزرگ عالم دین مولانا محمد یوسف سلطانی انہیں وجوہات کی وجہ سے حافظ آباد جیل میں انتقال کر چکے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ تحریک لبیک کے سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری شدید علیل ہیں،انہیں طبی سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں جبکہ اس جماعت کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی پر بھی جیل میں مختلف طرح سے جسمانی و ذہنی تشدد کیا گیا اورعلامہ خادم حسین رضوی کی حالت تشویشناک ہو چکی ہے۔