سپریم کورٹ نے ذہنی معذور شخص خضر حیات کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ میں ذہنی معذور خضر حیات کی سزائے موت رکوانے سے متعلق والدہ اقبال بانو کی درخواست کی سماعت ہوئی۔
جسٹس منظور ملک کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران خضر حیات کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ اس سے پہلے بھی ایسے مقدمات میں سزائے موت روک چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خضر حیات ٹرائل کے دوران ذہنی مریض بنا۔
وکیل حضر حیات نے بتایا کہ معاملہ پر 2016 میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا جس نے خضر حیات کے ذہنی مریض ہونے کی تصدیق کی۔
وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جیل رولز کے سیکشن 444 کے تحت ذہنی طور پر مکمل درست نہ ہونے پر سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل میں خضر حیات کے ذہنی مریض ہونے کا نکتہ کیوں نہیں اٹھایا گیا، اب سزا ہونے لگی ہے تو ذہنی مرض کا نکتہ اٹھا دیا گیا ہے۔
جسٹس منظور نے استفسار کیا کہ کیا آپکو یقین ہے کہ خضر حیات کی ذہنی کیفیت درست نہیں، جس پر ذہنی امراض کے معالج ڈاکٹر مبشر نے بتایا کہ خضر حیات ذہنی مریض ہے۔
جیل حکام نے بتایا کہ ملزم حضر حیات اس وقت جیل کے ہسپتال میں داخل ہے۔
ڈاکٹر مبشر نے عدالت سے استدعا کی کہ خضر حیات کی ذہنی کیفیت جانچنے کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے، اس مرض میں مریض کو معلوم نہیں ہوتا کیا کر رہا ہےْ۔
جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دیے کہ خضر حیات کی میڈیکل رپورٹ مکمل واضح واضح نہیں، کہیں ایسے سارے ملزم درخواست لے کر نہ آ جائیں۔
انہوں نے معاملہ لارجر بینچ کو بھجوانے کی ہدایات دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔