ایسے حالات میں جب وفاقی حکومت سندھ میں پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی ہے اور خود وفاقی حکومت کو اس کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تبدیلی نے گلگت بلتستان کا بھی رخ کرلیا۔
مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کو ہٹانے اور دیامر سے نیا وزیراعلیٰ لانے کی خبریں پیر کو گلگت بلتستان کے کئی اخبارات میں شائع ہوئیں۔
حافظ حفیظ الرحمن جب ایون فلیڈ ریفرنس کیس میں نواز شریف سے اظہار یکجہتی کیلئے سپریم کورٹ پہنچے تو صحافیوں نے اس نے اس حوالے سے سوالات کیے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو وزیر اعلیٰ سے ہٹا کر دیامر سے وزیر اعلیٰ لایا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کہاکہ مجھے اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔
تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وزیراعلی گلگت کو تبدیل کرنے کی بات کی گئی ہو۔ گذشتہ برس بھی ’ان ہائوس‘ تبدیلی کی خبریں گرم ہوئی تھیں۔
لیکن اس بار خطے کی نہ صرف ایک بڑی سیاسی قوت پیپلز پارٹی وزیراعلیٰ پر تنقید کر رہی ہے بلکہ مسلم لیگ(ن) سے ہی تعلق رکھنے والی صوبائی وزیر بہبود آبادی ثوبیہ مقدم نے بھی وزیراعلیٰ کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ جس پر وزیراعلیٰ نے صوبائی وزیر کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا تھا۔ ثوبیہ مقدم کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ نوٹس کا جواب دینے کو تیار ہیں لیکن ”سرنڈر” کرنے کو تیار نہیں۔
بتایا گیا ہے کہ صوبے میں تین حکومتی ارکان تبدیلی کے حق میں ہیں۔ دیامر سے وزیراعلی کون ہوگا نام پر ابھی اتفاق نہیں ہوا۔
انہی خبروں کے دوران پاکستان تحریک انصاف نے پیر کو گلگت بلتستان میں تنظیم سازی کے آغاز کا اعلان کیا۔
مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردی بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈویژن اور ضلع کی سطح پر ذمے داران کی تقرریوں کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق گلگت بلتستان میں تنظیمی ذمے داریوں کے خواہشمند کارکنان سے درخواستیں طلب کرلی گئی ہیں تنظیمی عہدے کے خواہشمند کارکنان 25 جنوری تک اپنی درخواستیں جمع کرواسکیں گے۔
درخواستیں پاکستان تحریک انصاف کی ویب سائیٹ پرآن لائن جمع کروائی جاسکیں گی
درخواستیں مرکزی سیکرٹری جنرل کے نام بھجوائی جا سکیں گی۔