ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مارے جانے والے ذیشان کے ورثا اورانتظامیہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے،ورثانے دھرنا ختم کرکے ذیشان کو سپرد خاک کردیا۔
ذیشان کابھائی احتشام کا کہنا ہے کہ جےآئی ٹی کی شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے،امید ہے شفاف تحقیقات کیلیے ہم سے کیا گیا وعدہ پورا کیا جائے گا،احتشام کا کہنا تھا کہ چاہتاہوں میرے بھائی کو انصاف ملے۔
واقعے میں جاں بحق ہونے والے خلیل، ان کی اہلیہ نبیلہ اور 13 سالہ بیٹی کو سپردخاک کیا گیا جب کہ ڈرائیور ذیشان کے ورثاء نے لاہور کے فیروز پورہ روڈ پر میت رکھ کر دھرنا دیا تھا۔
ورثا کا کہنا تھا کہ حکومت دہشتگردی کاالزام واپس لے،جب تک الزام واپس نہیں لیا جاتا ، میت سپردخاک نہیں کریں گے۔
دہشت گرد قرار دیئے گئے ذیشان کی والدہ کی فریاد
ذیشان کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ اہلحدیث یوتھ کا کارکن تھا اور اس نے اپنے پولیس اہلکار بھائی کی گارنٹی بھی دی تھی۔ احتشام ایک برس پہلے ہی ڈولفن فورس میں بھرتی ہوا تھا۔ جب ذیشان اس کا ضمانتی بنا تھا۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ ایک دہشت گرد کیسے سرکاری اہلکار کا ضمانتی بن گیا۔
نجی ٹی وی کی میزبان غریدہ فاروقی نے بتایا ہے کہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مارے جانے والے ذیشان کا علاقے میں اپنا مکان تھا، اس نے کمپیوٹر سائنس میں انٹر میڈیٹ کیا تھا اور کمپیوٹر کا کاروبار کرتا تھا۔
اہل علاقہ کے مطابق ذیشان فارغ وقت میں آن لائن ٹیکسی سروس کے ساتھ اپنی گاڑی چلاتا تھا جبکہ بکنگ پر بھی جاتا تھا۔
اطلاعات کے مطابق جمعیت اہل حدیث کے رہنما ہشام الہی ظہیر تعزیت کے لیے مقتول ذیشان کے گھرگئے۔
ذیشان اور دیگر مقتولین کی لاشیں اتوار کی سہ پہر ساہیوال سے لاہور پہنچیں۔ ذیشان کی نماز جنازہ ادا کردی گئی۔ جس میں اہلخانہ اورشہریوں کی بڑی کی تعداد نے شرکت کی۔
جنازے کے بعد ورثا اور اہلخانہ نے لاش سمیت فیروز پور روڈ پر دھرنا دے دیا۔ دھرنے کے نتیجے میں ٹریفک کی روانی متآثر ہوئی۔
ذیشان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ذیشان کو دہشتگرد قرار دے کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے، انصاف ملنے تک تدفین نہیں کریں گے۔
ذیشان کے اہلخانہ نے کہا کہ ذیشان پر عائد کیا گیا دہشتگردی کا الزام واپس لیا جائے اور دہشتگردی کا الزام عائد کرنے والے وزیر قانون راجہ بشارت فوری استعفیٰ دیں۔ ورثا نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان واقعہ کا از خود نوٹس لیں۔
گذشتہ روز بھی فیروز پور روڈ پر مقتولین کے ورثا نے دھرنا دیا تھا جس کے بعد مرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینے کے سرکاری مؤقف میں تبدیلی آئی تھی۔
اس سے پہلے صوبائی وزیرقانون راجہ بشارت نے ایک پریس کانفرنس میں ذیشان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے خلیل اور ان کے اہلخانہ کے قتل کی ذمہ داری بھی اس پر ڈالنے کی کوشش کی تھی