بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کی مد میں 358 ارب روپے دینے کی پیشکش

سپریم کورٹ آف پاکستان میں بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران بحریہ ٹائون کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو کراچی کے ہاؤسنگ منصوبے کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 16 ہزار ایکڑ زمین کے عوض 358 ارب روپے دینے کی پیشکش کی،جسے عدالت نےغیر معقول قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کو پیشکش پر دوبارہ غور کا حکم دے دیا۔

جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید کہا کہ آپ سے کہا تھا کہ جرمانے کی پیشکش کریں،آپ نے نہیں کیا تو کیس سن لیتے ہیں۔ بحریہ ٹائون کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے پیشکش بنا لی ہے،بحریہ ٹاؤن کے تینوں منصوبوں کے حوالے سے پیشکش بنائی ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کراچی والے بحریہ ٹاؤن سے شروع کریں، اس پر علی ظفر نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے پاس 16 ہزار 800 ایکڑ زمین ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا بحریہ ٹاؤن کراچی کی حد بندی ہوگئی؟

ڈپٹی سرویئر جنرل نے عدالت میں کہا کہ16 ہزار 886  ایکٹر زمین بحریہ کے پاس ہے۔جسٹس عظمت سعید نے ریماکس دیے کہ اس مقدمے میں اگر اداروں کے عدم تعاون کی شکایت ملی تو اچھا نہیں ہوگا۔ڈپٹی سرویئر جنرل نے کہا کہ  ہم نے حد بندی کے نشانات لگا دیئے ہیں،7ہزار 40ایکٹر نشان دہ علاقے سے زیادہ ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریماکس دیے کہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے ہی تو لوٹ مار کرائی ہے، سروے جنرل آپ سے رپورٹ کیوں شیئر کرتےہیں۔

انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ہم آج کے فیصلے میں لکھیں گے کہ عدالت کو کچھ بتایا گیا اور کیا کچھ اور، عدالت سے حقائق چھپائے گئے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ان لوگوں کی نالائقی کی سزا بحریہ کو مل رہی ہے،سروے جنرل نے پتہ نہیں کس کے کہنے پر یہ کیا ہے، اب بحریہ ٹاؤن کی پیش کش پر غور نہیں کرسکتے، بحریہ ٹاؤن نے خود عدالتی کارروائی کو خراب کیا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کمشنر سے کہا کہ سرکاری زمین کا قبضہ لیں وہ کہتے ہیں ہم نہیں لے سکتے پوچھنا پڑے گا، کلیکٹر اور کمشنر کو کچھ نہیں پتہ، بس کافی ہوگیا ہے، بحریہ ٹاؤن نے خود اس معاملے کو بند کردیا ہے، نیب سے کہیں گے تفتیشن کریں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ سروے جنرل آف پاکستان کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں گے، ڈپٹی سرویے جنرل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیتے ہیں جبکہ اٹارنی جنرل خود اس مقدمے میں پیش ہوں۔

جسٹس فیصل عرب نے کلیکٹر ملیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو کہتے تھے کہ نقشے میں ظاہر زمین آپ کے زیر قبضہ نہیں، آپ اس سرکاری زمین کو واپس لیں، جس پر کلیکٹر نے جواب دیا کہ میں سرکاری زمین واپس لے لوں گا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ سرکاری زمین کی حفاظت نہیں کرسکتے، اگر آپ حفاظت نہیں کریں گے تو نیب کا سامنا کریں گے۔ سرکاری زمین کا قبضہ لے کر سندھ ہائیکورٹ کے حوالے کریں، کلیکٹر، ڈپٹی کمشنر زمین کی حفاظت کے ذمے دار ہوں گے، اس سلسلے میں عمل درآمد رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے۔

ڈائریکٹر سروے جنرل نےکہاکہ ہم نے سرکاری زمین قبضے میں لینے کی حکمت عملی بنائی تھی، جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ موقع پر کون گیا تھا، ہمیں حکمت عملی نہ بتائی جائے، حکمت عملی بنانی ہے تو ڈیفنس اسکول آف اسٹریٹجک اسٹڈی جائیں۔ بحریہ ٹاؤن کا سرکاری زمین پر قبضہ نہ کرنے کا دعویٰ غلط ہے، بحریہ ٹاؤن والے سرکاری زمین بیچ رہے ہیں۔

انہوں نے سرکاری زمین کی فروخت کے حوالے سے مارکیٹنگ کمپنی پرزم کا اشتہاری کتابچہ عدالت میں پیش کردیا، جس پر عدالت نے پرزم کے مالک کو اگلی سماعت پر طلب کرلیا۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا کہ 16 ہزار ایکڑ زمین کے لیے 315 ارب روپے دینے کو تیار ہیں، اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے بغیر شرمندگی زمین پر قبضہ کیا ہے۔

وکیل نے کہا کہ میرا موکل تو گلوٹین میں پھنسا ہوا ہوں، اس سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہوں، بحریہ ٹاؤن زیادہ سے زیادہ 350 ارب روپے دے سکتا ہے۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہاں کوئی ٹماٹر نہیں بک رہے، جس پر وکیل بحریہ ٹاؤن علی ظفر نے کہا کہ 7 ہزار 68 ایکڑ زمین کے لیے 150 ارب روپے دینے کو تیار ہیں جبکہ 9 ہزار ایکڑ کے لیے 208 ارب روپے دے سکتے ہیں۔

وکیل کے جواب پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کے تحت غیر قانونی زمین نہیں بیچ سکتے۔

اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن 600 ارب روپے کا وعدہ نہیں کرسکتا، وہ وعدہ کریں گے جس پر عمل کرسکیں، 16 ہزار ایکڑ کے لیے 358 ارب روپے دے سکتے ہیں اور 8 سال میں ادائیگی کردیں گے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ پیشکش معقول نہیں ہے، بحریہ ٹاؤن کو پیشکش پر دوبارہ غور کا موقع دے رہے ہیں، آئندہ سماعت پر تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کریں گے، جس کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت 29 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔