کراچی میں رہائشی پلاٹوں کو کمرشل کا درجہ دلانے کے بعد ان پر بنائی گئی عمارتوں کے حوالے سے سندھ حکومت نے اہم اعلان کردیا ہے۔
سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد ہفتہ کی شب پریس کانفرنس میں وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہاکہ جو عمارتیں کمرشل ہوچکی ہیں انہیں نہیں کرایا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ شہر میں ایسے پلاٹ جو پہلے رہائشی مقاصد کے لیے تھے تاہم ان پر بعد ازاں کمرشل تعمیرات کر لی گئی ان تعمیرات کو گرا دیا جائے۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جج صاحبان نے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ کراچی کو اس کے ماسٹر پلان کےمطابق بحال کرنے کیلئے 500 عمارتیں گرانا پڑیں گی۔
رہائشی پلاٹوں کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے متعلق حکم نامے کی زد میں شادی ہالز بھی آئے ہیں جنہیں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔
اس پر ہفتہ کو شہر میں کئی اجلاس ہوئے جن میں سپریم کورٹ کے احکامات اور پہلے سے جاری تجاوزات کے خلاف آپریشن پر غور کیا۔ ایک اجلاس وزیراعلیٰ ہائوس میں ہوا۔ دوسرا صدر عارف علوی کی صدارت میں گورنر ہائوس میں ۔ جبکہ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) کے دفتر میں اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ میئر کراچی وسیم اخترنے عمارتیں گرانے کے حکم پر عملدرآمد سے انکار کا اعلان کیا۔؎
وزیراعلیٰ ہائوس میں اجلاس
وزیراعلیٰ ہائوس نے ہفتہ کی شام ایک اعلامیے میں ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا جو رات 9 بجے شروع ہوا۔
اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے حکم دیا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے شادی ہالز کو دیئے گئے نوٹسز واپس لیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شادی ہالز ایسوسی ایشن کے تحفظات دور کریں گے، سپریم کورٹ کے حکم میں واضح لکھا ہے کہ ایس بی سی اے کارروائی کرنے سے پہلے پورے معاملے کا جائزہ لے گی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 200 رجسٹرڈ شادی ہالز ہیں لیکن اجازت کے بغیر بنے ہوئے شادی ہالز کو 45 روز کا وقت دیا جائے۔
اجلاس کےبعد وزیر بلدیات سعید غنی اور مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے بریفنگ دی۔
سعید غنی نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی جائے گی، جو عمارتیں کمرشل ہوچکی ہیں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، ایس بی سی اے کی جانب سے جاری نوٹس منسوخ کردیا ہے، نوٹس سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آیا، سپریم کورٹ کے حکم میں ایسی چیزیں نہیں تھیں۔
انہوں نے کہاکہ کئی عمارتوں کو سٹی کونسل اور عدالتوں کے حکم پر کمرشل کیا گیا تھا۔محکمہ ماسٹر پلان نے 930 کی حیثیت کو تبدیل کیا۔ ماضی میں ماسٹرپلان نعمت اللہ خان اورمصطفیٰ کمال کےماتحت تھا،454 پلاٹس کی حیثیت کو پیپلز پارٹی کے دور میں تبدیل کیا گیا۔
وزیر بلدیات نے کہاکہ 200 شادی ہالز قانونی ہیں، کچھ غیرقانونی بھی ہوں گے۔
سعید غنی نے کہاکہ سارا شہر پریشان ہے، شادی ہالز بند نہیں ہونے دیں گے، گھروں کو گرانے کا مطلب انسانی المیے سے دوچار ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمارتیں گرا کر متبادل رہائش کا بندوبست کرنا سندھ حکومت کے لیے ممکن نہیں۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ مشرف دور میں عمارتوں کو کمرشل کیا گیا تھا۔ رپورٹ تیار کرکے 30 دن میں عدالت کو آگاہ کریں گے۔
اجلاس میں وزیربلدیات سعید غنی،مشیر قانون مرتضی وہاب،ایڈوکیٹ جنرل شریک ہونگے۔ چیف سیکریٹری،ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
صدر عارف علوی
ادھر گورنر ہائوس میں صدر عارف علوی کی زیر صدارت بھی ایک اجلاس ہوا۔ ترجمان کے مطابق اجلاس میں تجوزات کے خلاف آپرپشن اور متاثرین کی بحالی پر غور کیا اور اس حوالے سے رپورٹ وزیراعظم کو جلد پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ترجمان کاکہناتھا کہ متاثرین کی عدم بحالی پر تفتیش کا اظہار کیا گیا۔
ایم کیو ایم متحرک
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما خالد مقبول اور اسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر کراچی وسیم اختر نے بھی ایک پریس کانفرنس کی۔
وسیم اخبتر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر 500 عمارتیں گرانے پر عمل درآمد روکا جائے اور سندھ حکومت عمارتیں گرانے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرے۔انہوں نے کہا کہ بلڈنگ توڑیں گے اور نہ ہی شادی ہال توڑیں گے البتہ غیر قانونی شادی ہالز گرائے جائیں گے جبکہ رہائشی علاقوں میں قائم شادی ہالز کو نہ توڑا جائے۔
میئر کراچی کاکہنا تھا کہ جن عمارتوں کو گرانے کا کہاگیا وہ انکروچمنٹ نہیں بلکہ زمین کے استعمال کی تبدیلی کا معاملہ ہے، جن شادی ہالز میں شادی کی بکنگ ہے وہ بھی گرانے کو کہا گیا ہے۔
میئر کراچی نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان سے عمارتیں گرانے کے احکامات پر نظر ثانی کی اپیل کرتے ہیں، یہ ایک انسانی مسئلہ بن چکاہے، جب 525 کچی آبادیاں ریگولائز ہوسکتی ہیں تو ان مسائل پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کراچی کو 40 سال جس طرح لوٹا گیا ہے اس پر عدالتی کمیشن بنایا جائے۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) کا دفتر مبینہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کے معاملے میں ہونے والے تبادلہ خیال کا مرکز بنا ہوا ہے۔
آباد کے عہدیداروں سے صوبائی وزیربلدیات سعید غنی، شادی ہالز ایسوسی ایشن کے ارکان اور ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے ملاقاتیں کیں۔
آباد کا کہنا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے عمارتیں گرانے کا فیصلہ وہ چیلنج کریں گے۔